بچوں کو کیسے پڑھائیں ؟

اکثروالدین کو شکایت رہتی ہے کہ بچے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ بچوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھائی مشکل ہے ۔ اساتذہ اپنی طرف سے اپنے فرائض پورے کر رہے ہوتے ہیں پھر کمی کہاں رہ جاتی ہے ۔ دراصل اساتذہ کا مخلصا نہ رویہ تعلیمی عمل کو موثر بناسکتا ہے ۔ لیکن اس بات سے بہت کم اساتذہ واقف ہیں ۔ ہمارے ہاں اسکولوں میں تعلیمی عمل کو موثر بنانے کیلئے نئے نئے طریقے متعارف کروائے جاتے ہیں ۔ سمعی بصری معلومات کو تعلیمی عمل کے ہونے میں اہم مقام دیا جاتا ہے ۔ ان تمام کوششوں میں عام طور پر استاد کی اہمیت پس پشت ڈال دی جاتی ہے ۔ حالانکہ تعلیمی عمل کے موثر ہونے کا دارومدار استاد کی شخصیت اور فرائض کی انجام دہی سے مخلص ہونے پر ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ استاد صرف سبق یاد کروادینے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ بیٹھے ۔ استاد کی ذمہ داری اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ کمرہ جماعت میں موجود ہر بچے کی انفرادیت سمجھنے اور ان میں اجتماعیت کا احساس اجاگر کرنا ہی وہ مہارت ہے جو ایک اچھے استاد کو حاصل ہوتی ہے ۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ بچے کی ہر طرح کی کمی کو سمجھ کر اسے دور کردے ۔ ایک بچہ ہوم ورک بھی اچھا کرتا ہو اور ٹسٹ میں بھی اچھے نمبر لیتا ہے لیکن جب سبق پڑھنے لگتا ہے تو اٹک اٹک کر بولتا ہے ۔ اگر استاد اس کی اس کمزوری کو نظر انداز کردیتا ہے تو یہ اس کی اپنے فرائض کی طرف غفلت ہوتی ہے ۔

استاد کو چاہئے کہ وہ بچے کی اس کمزوری کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ زندگی میں اس کو کسی مسئلہ کا سامنا نہ ہو اور وہ ایک نارمل طریقے سے گفتگو کرنے کا اہل ہوسکے ۔ تعلیمی عمل کو موثر بنانے کیلئے استاد کو صابر بھی ہونا چاہئے ۔ مقررہ مدت میں نصاب مکمل کرانے کی جلد بازی کرنے والے اساتذہ بچوں کی مشکلات کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ وہ لائق بچوں کی مثال دے کر ثابت کرتے ہیں کہ میں نے تو سب کچھ سمجھا دیا تھا جن بچوں نے لکچر توجہ سے نہیں سنا وہ ہی پیچھے رہ گئے ہمارے یہاں بچوں کی بڑی تعداد ریاضی اور گرامر کے مضامین میں کمزور ہوتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان دونوں مضامین میںٹھیک طرح سے کام نہیں ہوتا ۔ بچے کو اصول سمجھانا ضروری ہوتا ہے ۔ ان مضامین میں کمزوری بچے کی نااہلی نہیں بلکہ اساتذہ کی غفلت ہے ۔ جو اساتذہ ریاضی کے فارمولے اور گرامر کے اصول بچوں کو اچھی طرح سمجھاتے ہیں اور انفرادی طور پر ہر بچے سے تسلی کرلیتے ہیں کہ اسے سمجھ آگئی ہے ان کی کلاس میں ان مضامین میں بچے کبھی کم نمبر نہیں لیتے ۔ استاد کو چاہئے کہ وہ ہر بچے کو سوال پوچھنے کا موقع اور آزادی دیں اور اس کے ہر سوال اور الجھن کا تسلی بخش جواب دیں ۔ فرائض سے مخلص اساتذہ کی طرف شاگرد فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ایسے استاد جب سوال پوچھتے ہیں تو ہر بچہ جواب دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ ہر بچے کو یقین ہوتا ہے کہ استاد اس کا موقف ضرور سنے گا ۔ سوال کرنے کے اشارے پر بچے کھل کر اپنے مسائل استاد کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ استاد کو چاہئے کہ وہ بچوں کو اس طرح کا برتاؤ کرے کہ جیسے وہ اس کی اپنی اولاد ہیں ۔ یہ رویہ بچوں میں استاد کیلئے اپنائیت کو پروان چڑھاتا ہے اور ان میں عزت نفس کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔