آرٹیفیشل زیورات خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں !
زیورات ابتدا سے ہی خواتین کی کمزوری رہے ہیں کیونکہ وہ بہتر جانتی ہیں کہ یہ ان کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کا باعث ہوتے ہیں۔ لہذا زیورات ڈیزائن کرنے والے بھی خواتین کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئے دن نت نئے انداز کی جیولری ڈیزائن کرتے ہیں اور اس میں طرح طرح کی اختراعات کرتے رہتے ہیں کہ نئے فیشن کے زیورات پر ان کا دل للچاتا رہے ۔ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں سونے کے زیورات زیادہ تر خواتین کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں۔ سو ان دنوں ہر طرف آرٹیفیشل جیولری آنکھوں کو خیرہ کرتی نظر آتی ہے ۔ یوں تو اس جیولری کی بے شمار اقسام ہیں جو ہر خاتون کی زیبائش میں اضافہ کرتی ہیں لیکن آج کل رنگ برنگے نگینوں سے مرصع زیورات خواتین کی توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ نگینوں سے جڑے زیورات کا فیشن گوکہ نیا نہیں لیکن جس طرح انداز بیاں بات کارنگ بدل دیتا ہے بالکل اسی طرح ڈیزائن میں ردوبدل اور جدت سے جیولری کا اندازہ بھی یکسر نیا دکھائی دیتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک باریک اور ان نازک نگینوں والی جیولری فیشن میں تھی جبکہ ان دنوں بڑے رنگوں والے زیورات نئے ٹرینڈ کا حصہ ہیں ۔ نگینوں سے جگمگ کرتے یہ زیورات ہر عمر کی خاتون کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں لہذا آپ بھی جھلمل کرتے ان ہار ، بُندؤں اور انگوٹھیوں میں سے کچھ کو اپنے جیولری باکس میںشامل رکھیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں پہن کر اپنی شان دوبالا کرسکیں ۔ مرسلہ :عذرا دکنی
منزل مقصود
اسکول کی گھنٹے بجتے ہی بچوں کے چہرے سے دمکنے لگے ۔ چھٹی ہوتے ہی سب اسکول سے باہر نکل آئے مگر ان بچوں میں اکبر واحد طالب علم تھا جو پرانے یونیفارم میں ابھی تک کلاس روم میں بیٹھا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا ۔ وہ اپنی ہتھیلیوں سے صاف کر رہا تھا ۔ روز کی طرح آج بھی استاد نے اس کی بے عزتی کی وجہ اس کا پرانا یونیفارم تھا ۔ اکبر نے سوچا ’’ آج میں امی سے بات کروں گا ‘‘ اور گھر کی طرف چل پڑا ۔ اس کی امی نے اسے دیکھا تو سوال کیا ۔ ’’ کیا بات ہے ، آج پھر روکر آئے ہو ؟ ۔ امی ! آج پھر استاد نے اکبر جملہ پورا نہ کرسکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ رات کو اکبر گھر سے صحن میں لیٹا آسمان کو تک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر میں غریب کیوں ہیں اور میرے پاس دولت کیوں نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرے لوگ امیر ہیں ۔ روزانہ استاد مجھے مارتے ہیں ۔ میں محنت کروں گا بڑا آدمی بنوں گا ۔ اس کی امی نے اسے جاگتے دیکھا تو پوچھا ۔ اکبر کیا سوچ رہے ہو ؟ جواب میں اکبر نے انہیں سب کچھ بتادیا ۔ اس کی بات سن کر انہوں نے کہا ۔ ہم غریب ہیں تو کیا ہوا تم محنت کرکے اور کامیاب شخص بن کر اس کمی کو پورا کرسکتے ہو ۔ اکبر نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا ۔ دوسرے دن وہ نئے عزم کے ساتھ اسکول واپسی پر اس نے ایک ہوٹل والے سے بات کی کہ وہ اسے اپنے ہوٹل میں پارٹ ٹائم کرنے دے ۔ پہلے تو اس نے اکبر کو منع کردیا لیکن اس کے بے حد اصرار پر وہ رضامند ہوگیا ۔ اکبر اسکول سے واپسی پر تین گھنٹے ہوٹل پر کام کرتا جس کا اسے معقول معاوضہ ملنے لگا ۔ اس نے نیا یونیفارم حرید لیا اور باقی پیسے امی کو دے دئے ۔ کام کے ساتھ وہ رات کو دیر تک پڑھتا رہتا ۔ اس کی محنت رنگ لائی اور میٹرک بورڈ میں اس نے دوسری پوزش حاصل کی اور شہر کے بہترین کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اس نے میڈیکل گروپ لیا تاکہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کرسکے ۔ وقت گذرتا رہا اور اس نے انٹر کرلیا ۔ انٹر میں بھی اس کے اچھے نمبر آئے تھے لہذا اسے میڈیکل میں داخلہ مل گیا ۔ بالاخر اپنی جہد مسلسل انتھک محنت اور ماں کی دعاؤں سے وہ ڈاکٹر بن گیا ۔ تقریب تقسیم اسناد میں تمام کامیاب طلباء کو ڈگریا دی گئیں ۔ اکبر نے ملازمت کیلئے کئی جگہ انٹرویو دئے آحر کار اسے ایک اسپتال میں نوکری مل گئی ۔ ایمانداری اور محنت سے کام کرتے ہوئے وہ ترقی کرتا چلا گیا اور پھ راکبر کو اسپتال کا انچارج بنادیا گیا ۔ انچارج بننے کی خوشی میں آج اس کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ڈاکٹر اکبر سے کہا گیا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ اس نے سب سے پہلے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا ۔ دوستو! مجھے خوشی ہے کہ آپ سب نے مجھے اتنی عزت دی ۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کبھی ہمت نہ ہاریں ۔ ہر حال میں حوصلے سے کام لیں محنت کریں انشاء اللہ آپ اپنے مقصد میں ضرورت کامیاب ہوں گے ۔ محنت اور صرف بھرپور محنت سے ہی منزل مقصود پر پہونچاجاسکتا ہے ۔ ساتھیوں نے اس کی باتیں سن کر خوب تالیاں بجائیں اور وہ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا ۔ آج اسے اپنی محنت کا پھل مل گیا تھا ۔ آج وہ ایک عام انسان سے ڈاکٹر اکبر بن گیا تھا ۔ اس نے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو اپنا مشن بنالیا تھا ۔
لفظ لفظ موتی
٭ بچھو کی دم میں زہر ہوتا ہے ۔ سانپ کے دانت میں اور مگر مچھ کے سر میں لیکن برے آدمی کے پورے وجود میں زہر ہوتا ہے۔
٭ دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں پر نکتہ چینی کرنا اور سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔
٭ زندگی کی مصیبتیں کم کرنا چاہتے ہو تو زیادہ سے زیادہ مصروف رہو ۔
٭ آنسو اس وقت مقدس ہوتے ہیں جب وہ کسی اور کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کر کے نکلیں ۔
٭پریشانیاں تذکرہ کرنے سے بڑھ جاتی ہیں ۔
٭گلے شکوے سے زبان بند رکھو ،راحت ہوگی ۔
٭ زندگی میں مایوسی سے بڑھ کر اور کوئی مصیبت نہیں ،اس سے بچو ۔
٭ خود اعتمادی ،کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے ۔
٭بوڑھے کی رائے ،جوان کی طاقت سے بڑی ہے ۔
٭گنا ہ کسی نہ کسی صورت دل کو بے چین رکھتا ہے ۔
٭عقل مند اور مخلص دوست ،زندگی کا سرمایہ ہے
٭ لوگوں کو برے انداز سے مخاطب مت کرو ،نتیجتاً ان کا اس سے بد تر جواب تمہیں برا لگے گا ۔
٭حوصلہ کبھی نہیں پوچھتا کہ پتھر کی دیوار کتنی اونچی ہے ۔