بچوں پر بڑوں کے مماثل مقدمہ چلانے کے فیصلہ پر تنقید

نئی دہلی ۔26اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) حکومت کی جانب سے بچوں کی اقل ترین عمر کی حد کو گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کی صورت میں بالغوں کے مساوی قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کیلئے حکومت کی منظوریپر بعض گوشوں سے شدید مذمت کی جارہی ہے ۔ حقوق اطفال کارکنوں ‘ دانشوروں اور ماہرین نے اس تجویز پر شدت سے تنقید کی ہے جو افراد اس تجویز کی تائید کرتے ہیں وہ احتیاط کا مشورہ بھی دیتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی تحفظات بشمول اطفال کی بازآبادکاری اور انہیں مناسب تعلیم ‘ غذا اور قیامگاہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کی دیکھ بھال بھی ضروری ہوجائے گی ۔ تاہم وائس چانسلر او پی جندال عالمی یونیورسٹی ہریانہ ‘ سی راجکمار اور حقوق اطفال کارکن و قانون داں اننت کمار استھانہ نے ایک متوازی موقف اختیار کیا ہے جو اس تجویز کے برعکس ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کیلئے سخت دفعات منظور کی جائیں کیونکہ موجودہ قانون کی دفعات کئی ممالک میں ناکام ہوچکی ہیں اور حقیقی مسئلہ کی یکسوئی نہیں ہوسکی ۔انہوں نے کہا کہ بچوں کیلئے سخت قانون پہلے ہی کئی ممالک میں ناکام ہوچکا ہے اور اس میں ترمیم کی جارہی ہے ۔ اُن کے نظریہ کو راجکمار نے دوہراتے ہوئے کہا کہ حقیقی مسئلہ کی سماج میں یکسوئی کے بغیر صرف اقل ترین عمر کی حد میں کمی سے بچوں پر الزام عائد ہوجائے گا ۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے ایک سینئر نامور فوجداری وکیل کے ٹی ایس تلسی ایک اور سینئر مشیر قانونی ایچ ایس پھولکا نے کہا کہ قانون میں تبدیلی کے ذریعہ بچوں میں قانون کے ساتھ تصادم کا جذبہ پیدا ہوجائے گا کیونکہ وہ جان جائیں گے کہ انہیں آسانی سے چھٹکارا نہیں ملے گا ۔ مجرموں کا گروہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور بچوں کا ان کی جانب سے استحصال کیا جائے گا ۔ اس قانون کے متعارف کرنے کی صورت میں بچوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی تعداد تقریباً 300فیصد زیادہ ہوجائے گی۔