ریڑھ کی ہڈی اور نشونما متاثر ،والدین توجہ دیں، انتظامیہ کیخلاف کارروائی کی گنجائش
حیدرآباد۔ 9 جون (سیاست نیوز) وزنی بیاگس طلبہ کی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرسکتے ہیں اسی لئے بیاگ کو پیٹھ پر لادنے کا سلسلہ بچپن سے ہی ترک کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ڈاکٹرس کے بموجب حالیہ عرصہ میں اس بات کی شکایت عام ہورہی ہے کہ 14 سال کی عمر میں ہی بچے پیٹھ اور کمر میں درد کی شکایت کے ساتھ دواخانوں سے رجوع ہونے لگے ہیں۔ اسکولوں میں تعلیمی نصاب کے علاوہ اضافی کتب اور نوٹ بُکس کے اضافی بوجھ کے باعث بچوں کے معصوم کندھوں پر حد سے زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے۔ اسکول بیاگ ایکٹ 2006 کے مطابق بچوں پر ان کے وزن کا صرف 10% بوجھ بیاگ کی شکل میں ڈالا جاسکتا ہے، اس سے زائد بوجھ عائد کرنے والے اسکولوں اور اساتذہ کے خلاف قانون میں کارروائی کی گنجائش فراہم کی گئی ہے، لیکن عدم معلومات کی بناء پر اولیائے طلبہ و سرپرست اسکول انتظامیہ کی جانب سے عائد کئے جانے والے بے تحاشہ بوجھ کو ڈھونے کیلئے بچوں کو تیار کرنے میں مصروف ہیں جبکہ اولیائے طلبہ کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام ان کے بچوں کی زندگیوں کیلئے خطرات کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی اور کندھوں پر اٹھائے جانے والے بوجھ کے باعث ہونے والے پیٹھ کے درد سے نشونما پر بھی کافی اثر پڑتا ہے۔ محققین کے بموجب اسکول جانے والے طلبہ کو دیئے جارہے وزنی بستوں سے ان کی نہ صرف جسمانی صحت پر اثر پڑتا ہے بلکہ طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھانے کے باعث ذہنی کوفت میں بھی مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ آرتھوپیڈک ماہرین نے بیاگ کے استعمال کے متعلق دیئے گئے مشوروں میں اس بات کی تاکید کی ہے کہ چھوٹے اور ہلکے وزن والے بیاگس استعمال کرنے کی عادت ڈالیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے وزن سے 15% تک کے بیاگس انہیں اٹھانے کیلئے دیئے جائیں، اس سے زیادہ وزنی بیاگس ان کی صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بچے کا وزن 20 کیلو ہو تو اسے 3 کیلو سے زیادہ وزنی کا بیاگ اٹھانے نہ دیا جائے اور بچے کا وزن 30 کیلو ہوتو اسے صرف ساڑھے چار کیلو وزنی بیاگ دیا جائے۔ اسی طرح جن طلبہ کا وزن 40 کیلو ہے، انہیں 6 کیلو سے زیادہ کا بوجھ اٹھانے نہ دیا جائے۔ علاوہ ازیں اسکول ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ بھی اس بات پر توجہ دیں کہ اسکولس میں طلبہ کیلئے لاکرس فراہم کئے جائیں تاکہ طلبہ اپنے وزنی بستے وہیں رکھ سکیں یا پھر طلبہ کو اس طرح تیار کریں کہ روزانہ صرف ضرورت کے مطابق ہی کتابیں لائیں۔ ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ بستوں کا بوجھ اٹھانے والے طلبہ اگر جسمانی ورزش نہیں کرتے تو انہیں مستقبل میں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کئی اسکولی طلبہ جو پیٹھ کے درد کے علاوہ کندھوں اور گردن میں درد کے ساتھ ڈاکٹرس سے رجوع ہورہے ہیں ، ان میں عام بات یہ دیکھی جارہی ہے کہ ان کے اسکولی بستے ضرورت سے زیادہ وزنی ہیں جنہیں وہ روزانہ تقریباً 20 تا 25 منٹ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے رہتے ہیں۔ طلبہ کا کم عمری میں اتنا بوجھ اٹھانا ان کے ہڈیوں کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے، اسی لئے بستوں کے وزن میں تخفیف کے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور بچوں کو اس بات کیلئے بھی تیار کیا جانا چاہئے کہ وہ بستے کو اٹھانے کے طریقہ کار سے واقف ہوں چونکہ بسااوقات ایک کندھے پر مکمل وزن ڈالنے کے سبب بھی کئی تکالیف شروع ہونے لگتی ہیں، اس لئے دونوں کندھوں پر مساوی وزن کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔