ایک باغ میں ایک بلبل اپنے دو بچوں کے ساتھ سوکھے درخت میں رہتی تھی ۔ اس درخت میں کبھی پھل نہیں آتے تھے ۔ ایک دن باغ کا مالک آگیا اور مالی کو بلاکر پوچھا کہ ’’تم نے اس سوکھے درخت کو کیوں باغ میں چھوڑا ہے ۔ اس درخت کو کاٹ دینا اور اس کی لکڑیاں میرے گھر بھیج دینا تاکہ لکڑیاں جلانے کے کام آسکیں۔ یہ کہکر مالک باغ سے چلا گیا ۔
اس وقت بلبل باہر خوراک کی تلاش میں گئی ہوئی تھی ۔ جب بلبل کے بچوں نے یہ باتیں سنیں ، تو پریشان ہوگئے ۔ اب ہم کہاں جائیں گے ؟ وہ بے چینی سے ماں کا انتظار کررہے تھے ۔ جب بلبل آگئی تو انھوں نے ماں کو سارا واقعہ سنایا ۔ بلبل نے کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ مالک نے صرف مالی کو کہا ہے اور مالی بہت کاہل ہے ۔ وہ کبھی درخت نہیں کاٹے گا ۔ جب دوسری صبح ہوئی تو ایسا ہی ہوا ، مالی آیا ، پودوں کو پانی دیا اور چلا گیا۔جب دوپہر کو مالک آیا تو اس نے درخت ایسے ہی پایا ، مالی کو بلاکر پوچھا کہ تم نے یہ درخت کیوں نہیں کاٹا ؟
مالی نے کہا : ’’جناب ! میں نے سارا وقت پودوں کو پانی دینے میں صرف کیا ، مجھ کو درخت کاٹنے کا وقت نہیں مل سکا ‘‘۔
تو مالک نے کہا : ’’ٹھیک ہے ! کل میں دوسرا مالی بھیج دوں گا وہ درخت کاٹ لے گا ، یہ کہہ کر مالک چلا گیا۔
پھر جب بلبل خوراک لے کر آگئی تو اس نے بچوں سے پوچھا کہ آج باغ کا مالک آیا تھا ؟
انھوں نے کہا ’’ماں ! آج باغ کا مالک آیا تھا ، اس نے کہا کہ کل پھر دوسرا آدمی بھیجے گا تو بلبل نے کہا ۔ ’’میرے بچو ! فکر مت کرو ، جو آدمی اپنا کام دوسرے پرچھوڑتا ہے تو وہ کام بھی نہیں ہوتا اس لئے کل کا دن بھی ہمارا ہے ‘‘۔
ایسا ہی ہوا ، وہ آدمی آیا ہی نہیں ۔ تیسرے دن مالک نے مالی سے کہاکہ میں خود آکر یہ درخت کاٹوں گا ۔ بلبل کے بچے یہ ساری باتیں سن رہے تھے ، جب ان کی ماں آئی تو انھوں نے ماں کو سارا ماجرا سنایا تو بلبل نے کہا ۔ ’’میرے بچو ! اب یہاں سے چلو کیونکہ مالک نے خود کام کرنے کاارادہ کرلیا ہے اور وہ کل ضرور آکر درخت کاٹے گا ‘‘۔
اس طرح بلبل کی عقلمندی سے سب دوسری جگہ منتقل ہوگئے ۔ کسی نے صحیح کہا ہے جو لوگ اپنا کام دوسروں کے آسرے پر چھوڑتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ۔ اس لئے انسان کو اپنا ہر کام خود کرنا چاہئے۔