بوڑھوں اورضعیفوں کی خدمت سعادت دارین کی ضامن

انسان کی زندگی کے تین ادوار ہیں،نظام قدرت یہی ہے کہ انسان پہلے بچپن ، پھر جوانی، جوانی کے بعد پھربڑھاپے کی منزل پر پہنچتا ہے ۔ ارشاد باری ہے’’اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیںاُسے پیدائش کی حالت کی طرف لوٹا دیتے ہیں ، کیا وہ پھر بھی نہیں سمجھتے‘‘ (یٰسین:۶۸)اللہ سبحانہ جسے طویل عمر دیتے ہیں تو اس کو برعکس یعنی بچپن جیسی حالت میں تبدیل کردیتے ہیں۔ پیدائش کے بعد انسان کی نشونما ہوتی رہتی ہے، جسمانی طاقت و قوت اور فہم و عقل میں روزبروز اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، جوانی کا زمانہ گزارتے ہوئے بتدریج بڑھاپے کی منزل پر پہنچ جاتا ہے، بچپن کے برعکس بڑھاپے میں ضعف و کمزوری پیدا ہوجاتی ہے، جسمانی و بدنی ضعف کے ساتھ عقل و فہم کی قوی بھی انحطاط پذیر ہوجاتی ہیں ۔ ضعف و کمزوری کے اعتبار سے بچپن اور بڑھاپے میں کوئی خاص فرق نہیں رہتا، بڑھاپا جب دامن گیر ہوتا ہے توانسان بچپن سے زیادہ دوسروں کا محتاج ہوجاتاہے۔جوانی کا زمانہ تو طاقت و قوت سے بھرپور ہوتا ہے، جوانوں کے عزم و حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں، وہ چاہیں تو اپنی جوانی کے زمانہ کو کام میں لاکر خودبھی بھرپور فوائد حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ پہونچا سکتے ہیں ، اپنا اور اپنے خاندان کا بھلا کرنے کے ساتھ خلق خدا کیلئے بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں، قوی جسمانی و قوی ذہنی دو ایسی قوتیں ہیں جن کو کام میں لایا جائے تو بڑے کارہائے نمایاں انجام دئے جاسکتے ہیں، لیکن بڑھاپا جب طاری ہوجائے اور خاص طور پر جب وہ کہولت کی منزل پر پہنچ جائے تو اب اس سے اپنی خدمت بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ بچپن کا زمانہ بھی کمزوری و ناتوانی کا ہوتاہے لیکن ماں باپ اور دیگر رشتہ داربچوں کی طرف خصوصی توجہ کرتے ہیں، ان کی راحت اور آرام کیلئے ماں باپ اپنی راحت و آرام کو قربان کرتے ہیں، خود بھوکے رہ کر ان کو کھلاتے ہیں، رنج و غم کا کوئی سایہ ان پر پڑنے نہیں دیتے، ایسی محبت اور ایسا چاؤ ان کو ملتا ہے کہ وہ گلشن حیات کے دکھوں اور غموں سے بے نیاز مسرت و شادمانی سے بھر پور چین و سکون کی زندگی گزارتے ہیں، جبکہ بڑھاپے کا زمانہ بھی کمزوری و محتاجی کا ہوتا ہے لیکن عام طور پر ان کو وہ محبت و چاہت نہیں ملتی جس کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کو وہ خدمت بھی نہیں ملتی جس کے وہ شدید محتاج ہوتے ہیں اور حقدار بھی۔ بچپن اور بچپن کے بعد کے زمانہ میں ماں باپ اپنا سب کچھ کھوکر اولاد کو بنانے، سنوارنے اور ان کو ترقی و عروج کے منازل پر پہنچانے کیلئے خود کو گھلاتے ہیں، لیکن یہی ماں باپ جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو وہ اولاد جو ماں باپ کی قربانیوں کی وجہ پروان چڑھی ہے اور ترقی کے آسمان کو چھوسکی ہے وہ یہ سب بھول جاتی ہے اور اپنے ضعیف ماں باپ کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیںیا کم از کم اتنی خدمت و دلجوئی بھی نہیں ہوپاتی کہ جس کی وجہ کچھ نہ کچھ درجہ میں ان کا حق ادا ہوسکے اور ان کے غمزدہ دل کو تسلی مل سکے۔ ماں باپ کماتے کھاتے ہوں اور اپنے بل بوتے پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہوئے جی سکتے ہوں تو ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ تو ان ماں باپ کا ہے جو ایسے بوڑھے ہوچکے ہیں کہ وہ اب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں، قدم آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو سہارے کے بغیر قدم آگے نہیںبڑھاسکتے، کچھ تھامنا چاہتے ہیں تو از خود تھام نہیں سکتے ، اپنی بنیادی ضروریات از خود پورا کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں کرسکتے، ایسے میں بچپن سے زیادہ بڑھاپے میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے سہارے جوخلوص ومحبت ، سلوک و خدمت سے بھرپور ہوں، ایسی خدمت جو ان کو ڈھارس بندھاسکے اور ان کے مغموم دل کوٹھنڈک پہنچا سکے۔ اولاد کو عصائے پیری سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ عصابوڑھے آدمی کا سہارا ہوتا ہے اسی طرح اولاد بھی ماں باپ کی ضعیفی میں ان کا سہارا بنتی ہے ۔اسلام نے ہر ایک کے حقوق متعین کئے ہیں، ان میںبوڑھوں کے حقوق بھی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں، اسلام نے ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو واجب کیا ہے، وہ اگر مال نہ رکھتے ہوں یا کمانے کھانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوں تو ان کی یہ ذمہ داری اسلام نے اولاد پر عائد کی ہے، اولاد نہ ہو تو دیگر رشتہ دار درجہ بدرجہ اس کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ بڑھاپا بہت سے مشکلات اپنے ساتھ لاتا ہے،مالی مشکلات بھی کمزوری وضعیفی کی وجہ جسمانی طاقت و قوت و صحت کی مشکلات بھی،بڑھاپے میں نفسیاتی مسائل کا ہجوم بھی دامن گیرہوجاتا ہے، ان ساری مشکلات اور الجھنوں سے نجات پانے کیلئے وہ سہارے کا متمنی رہتا ہے ، اس طرح کہ کوئی اس سے بات چیت کرے، کہنے سے زیادہ گوش سماعت کو کھلی رکھے اور خوب خوب سنے کہ ان کا دل ہلکا ہوجائے پھر کہنے کی نوبت آئے تو ایسی بات کہے جس میں وہ ضعیف ماںباپ اپنی نفسیاتی الجھنوں کا حل پاسکیں اور ان کو گفتگو سے ایسی تسلی وتشفی ملے کہ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کریں، یہ بڑی خوشی کی بات ہیکہ موجودہ دور نے بڑی ترقی کی ہے جہاں مادی اعتبار سے آرام و آسائش کے کافی سامان مہیا ہیں وہیں ایک افسوسناک اور تلخ حقیقت کا اس وقت سامنا ہے اور وہ ہے اخلاقیات کا زوال و انحطاط۔ اس کی وجہ جہاں معاشرہ کے بہت سے گوشوں پر اس کا اثر مرتب ہوا ہے وہیں سماج کے ضعیف اور بزرگ بھی اس کی زد میں ہیں، اس وقت ہر ایک کو معاشی ترقی مطلوب ہے اس کیلئے وہ دور دراز ملکوں کا سفر کرنے کیلئے تیار ہے تاکہ وہاں پائے جانے والے روزگار کے مواقع سے استفادہ کیا جاسکے۔ صبر و قناعت رخصت ہونے کی وجہ ہر کوئی ’’ھل من مزید‘‘ کے ورد میں مصروف ہے، اس کی وجہ بھی بزرگوں سے بے اعتناعی بڑھ گئی ہے اور زندگی اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ اولاد کو اپنے ضعیف والدین کے ساتھ کچھ لمحات ہی کیلئے کیوں نہ ہو، وقت گزارنے کی فرصت نہیں، گھڑی دو گھڑی بھی وہ ان کے پاس بیٹھنے کی روادار نہیں، بوڑھے اور ضعیف اپنا دکھ درد کسی کو سنانا چاہیں تو کوئی دستیاب نہیں، اسلئے وہ ٹھنڈی سانسیں لیتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے اپنی بچی کچی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دوسری وجہ خودغرضی ہے کہ جس کی وجہ دوسروں کے درد و کرب کے احساس سے محرومی ہے جس نے موجودہ دور کے بزرگ والدین اور ضعیف العمر افراد خاندان کیلئے مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہالینڈ کے ایک اولڈایج ہوم کے ذمہ داروں نے بوڑھے افراد کی تنہائی کو دور کرنے کی غرض سے اس بیت المعمرین میں کالجوں و یونیورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کو مفت رہائش فراہم کرنے کا پیشکش کیا ہے اس شرط کیساتھ کہ اس کے عوض وہ نوجوان طلباء کم ازکم یومیہ ایک گھنٹہ ان ضعیفوں کیساتھ گزاریں جو اس بیت المعمرین میں فروکش ہیں، اولڈایج ہوم کے ذمہ داروں کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ اچھے نتائج کا تجربہ ہورہا ہے۔ انسان چاہے کتنے ہی مادی سہارے تلاش کرلے وہ سکون نہیںپاسکتا اور نہ ہی مادی سہارے ضعیفوں اور بوڑھوں کی تسکین قلب کا سامان کرسکتے ہیں، قلب کی تسکین کا سامان توپیدا کرنے والے خالق و مالک نے اپنے نازل کردہ احکام و ہدایات میں رکھا ہے، اس سے روگردانی مسائل کی اہم وجہ ہے۔ خالق و مالک کی معرفت اور سرچشمۂ وحی کے فیضان سے محروم مغربی تہذیب نے سماج میں ’’بیت المعمرین‘‘ کے قیام کو فروغ دیا ہے جس سے مغربی ممالک کے معمر افراد اذیت و تکلیف محسوس کر رہے تھے اور اب یہی صورتحال مشرق کے بھی دامن گیر ہے، مشرقی تہذیب میںپہلے ضعیفوں اور بزرگوں کو آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا، ان کی خدمت کو دنیا و آخرت میں باعث سعادت جانا جاتا تھا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے ان سے دعائیں لی جاتی تھیں، لیکن صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، ایک ماںباپ کے کئی بچے ہوں تو ان میں سے ہر ایک اپنے ماں باپ کی خدمت کو اپنے لئے بار سمجھتے ہوئے دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اس طرح ہر کوئی اپنا دامن بچانے میں مصروف ہے۔ کسی مفکر کا یہ قول قابل عبرت و نصیحت ہے کہ ’’ ایک ماں باپ اگر ان کو سو بچے ہوں تو وہ دل و جان سے ان کو پیار و محبت سے پال پوس کر بڑا کریں گے لیکن سو بچے مل کر بھی اپنے ماں باپ سے حسن سلو ک کرکے ان کو خوشی نہیں دے سکتے‘‘۔ اس طرح کی کہاوت سے مقصود اس معاشرہ کی نشاندہی مقصود ہوتی ہے جو بکثرت اس خرابی میں مبتلا ہے، ورنہ اچھے لوگ تو ہر دور میں ہوتے ہیں جو بزرگوں کی خدمت اور ان کی دلدہی کر کے انسانیت کی اعلیٰ مثال زمانہ کی تاریخ میں رقم کرتے ہیں۔اسلام نے ماں باپ کے اور بزرگان خاندان کے بڑے حقوق بتائے ہیں اس کی تفصیل بیان کرنے کی اس مختصر مضمون میں گنجائش نہیں تاہم یہ حدیث پاک لوح قلب پر کندہ کرلی جائے تواولاد کی دنیا وآخرت سنورسکتی ہے اور ضعیف والدین و بزرگوں کے ساتھ ہونے والی بے اعتناعی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ارشاد ہے: ’’جو نوجوان کسی ضعیف و بوڑھے فرد کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے تعظیم کریگا تو اس نوجوان کے کبر سنی کے زمانہ میں ویسی ہی تعظیم کرنے والے کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ بندوبست فرمائیں گے: ما اکرم شاب شیخا لسنہ الا قیض اللّٰہ لہ من یکرمہ عند سنہ (ترمذی:۲۰۲۲)الغرض اللہ نے اس دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے جو’’ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘‘ کے مصداق ہے۔ اسلئے اپنی کبر سنی میں اپنی بھلائی وبہتری اور اپنی عظمت اور اپنے احترام کے ساتھ آخرت کی کامیابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزرگ والدین اور بزرگ افراد انسانیت کے ساتھ خیرخواہی و بھلائی کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو عزیز رکھیں اسی میں خود اپنا اور معاشرہ کے چین و سکون کا راز پنہاں ہے۔