بوسہ گاہِ مصطفی ؐپر جب کہ خنجر چل گیا !!

قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
شبِ عاشور‘ سیدالشہدا‘ سبطِ رسول اللہ حضرتِ امام عالیمقام نے عبادت الٰہی میں گذاری رات کے پچھلے پہر آپ پر استغراق کی کیفیت طاری ہوئی۔ حق تعالیٰ کی یاد میں اس قدر محوہوئے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے اُسی عالم میں حضور اقدس ﷺ فرشتوں کی جماعت کے ساتھ میدان کربلا میں تشریف لائے اور حضرت امام حسین ؓ کو بچوں کی طرح گود میں لے کر خوب پیار فرمایا اور ارشاد فرمایا اے جان و دل کے چین نور العین‘ میرے حسین میںخوب جانتا ہوں کہ دشمن تیرے درپے آزار ہیں اور تجھے قتل کرنا چاہتے ہیں بیٹا! تم صبر و شکر سے اس ساعت کو گزارنا تیرے جتنے قاتل ہیں قیامت کے دن سب میری شفاعت سے محروم رہیں گے اور تجھے شہادت کا بڑا درجہ ملنے والا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں تم اس کرب و بلا سے چھوٹ جاؤگے‘ بیٹا تیرے لئے بہشت سنواری گئی ہے‘ تیرے ماں باپ بہشت کے دروازے پر تیری راہ تک رہے ہیں یہ باتیں فرماکر پھر حضرت امام عالیمقام ؓ کے سرو سینہ پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی کہ اَللہھُمَّ اَعْطِ الحُسیْنَ صبراًوّاَجراً۔ اے اللہ میری حسین کو صبر و اجر عنایت فرما۔
یزید جب کسی طرح حضرت امام حسین ؓ سے لڑائی کرنے سے باز نہیں آیا اور لڑنے ہی پر قائم رہا تو حضرت امام عالیمقام ؓ نے بھی عمامہ رسول باندھا‘ ذوالفقار حیدری ہاتھ میں لیا اور ناقہ پر سوار ہو کر میدان میں تشریف لائے اورلشکر ابن سعد کے قریب ہوکر فرمایا: اے عراق والو! تم خوب جانتے ہو کہ میں نواسۂ رسول ہوں ‘ فرزند بتول ‘ دلبند علی مرتضیٰ اور برادر حسن مجتبیٰ ہوں۔ دیکھویہ عمامہ کس کا ہے ‘ یہ زِرہ کس کی ہے یہ تلوار یہ اونٹ کس کا ہے‘ غور طلب بات یہ ہے ہر دین و ملت کے لوگ اپنے پیشواؤں کی یادگار کو بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے ہیں ۔ میں تمہارے رسول کا نواسہ ہوں ‘ علی شیر خدا کا فرزند ہوں اگر تم میرے ساتھ کوئی سلوک نہیں کرسکتے تو کم ازکم مجھے قتل ہی نہ کرو۔ بتاؤ تم نے کس وجہ سے میرا اور میرے اہل و عیال کا پانی بند کر رکھا ہے ۔ کیا میں نے تم مے سے کسی کا خون کیا ہے یا کسی کی جاگیر ضبط کی ہے جسکا بدلہ تم مجھ سے لے رھے ہو تم نے خود مجھ کو یہاں بلایا اور اب یہ اچھی میری مہمان نوازی کر رہے ہو۔ زرا سوچوکہ تم کیا کر رہے ہو۔ اے کوفیو! تمہیں میرا حسب و نسب معلوم ہے جس کامثل آج روئے زمین پر نہیں ہے پھر سوچو کہ تم نے خود ہی مجھے خطوط لکھ کر بلایا ہے پھر اب میرے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے ہو۔ دیکہو یہ تمہارے خطوط ہے آپ نے خطوط دکھائے تو اُن بے وفائوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ہمارے خطوط نہیں ہے حضرت امام عالیمقام ؓ نے اُن کے اس کذب و عذر سے متحیر ہوکر فرمایا الحمدللہ حجت تمام ہوئی ۔ محرم کی ۱۰ تاریخ کو میدان کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کے جملہ احباب و اقارب شہید ہوگئے تو حضرت امام عالیمقام نے خود پوشاک بدلی قبائے مصری پہنی عمامۂ رسول باندھا سپر ِ حمزہ اور ذوالفقار حیدر کرار لیکر ذوالجناح پر سوار ہوکر میدان تشریف لے گئے۔ اتنے میں حضرت کے صاحبزادہ سید الساجدین حضرت امام زین العابدین ؓ جو اُس وقت بیمار تھے اور بستر سے ناتوانی کی وجہ اٹھ نہ سکتے تھے بڑی مشکل سے عصا تھامے ہوئے ضعف کے سبب لڑکھڑاتے ہوئے حضرت امام حسین ؓ کے پاس آکر عرض کرنے لگے کہ اببا جان! میرے ہوتے ہوئے آپ کیوں تشریف لیجارہے ہیں مجھے بھی حکم دیجئے کہ میں بھی لڑکر شہادت کا درجہ حاصل کروں اور اپنے بھائیوں سے جاملوں ۔ حضرت امام عالیمقام ؓ یہ گفتگو سن کے آب دیدہ ہوگئے اور ارشاد فرمایا اے راحت جانِ حسین تم خیمۂ اہلبیت میں جاکر بیٹھو اور قصدِ شہادت نہ کرو‘ بیٹا رسول اللہ ﷺ کی نسل تمہیں سے باقی رہے گی اور قیامت تک منقطع نہ ہوگی۔ حضرت امام کا یہ ارشاد سن کر امام زین العابدین ؓ خاموش ہوگئے پھر حضرت امام حسین ؓ نے اُن کو نصیحت و وصیت کرکے تمام علوم ظاہری و باطنی اور راز امامت سے آگاہ فرمایا ۔
حضرت امام حسین ؓ پھر میدان میں تشریف لائے اور اہلبیت ِ عظام کی عظمت و بہادری اور جرائت و شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ ملائکہ مقربین بھی حیرت زدہ ہوگئے۔ اللہ !یہ حملہ کیا تھا شیر یزداں کا حملہ تھا۔ جو آپ کے مقابلہ میں آیا بیشک قضا نے اُسکو واصل جہنم کردیا۔ سیکڑوں جفا کاروں سے لڑتے ہوئے اُنھیں فنا فی النار کردیا۔ جس طرف نگاہ اُٹھی لاشوں کے ڈھیر لگادیئے ۔ حضرت امام حسین ؓ میدان کربلا سے پھر خیمہ میں تشریف لائے اور اہلبیت سے فرمایا کہ چادریں اوڑھو جزع و فزع نہ کرو ۔مصیبت پر کمر بستہ رہو میرے یتیموں کو آرام سے رکھنا پھر امام زین العابدین ؓ کو سینہ سے لگاکر پیشانی چومی اور فرمایا بیٹا جب مدینہ پہنچو تو میرے دوستوں سے میرا سلام کھنااور میری جانب سے میرا پیغام دینا کہ جب تم کوئی رنج و بلا میں مبتلا ہوتو میرے اس حادثہ کو یاد کرلینا۔ جب کوئی پانی پئے تو میری پیاس کو نہ بھولنا۔ حضرت امام نے اپنا یہ آخری دیدار کرکے پھر میدان تشریف لائے تو یزیدیوں نے یکبا رگی آپ پر حملہ کردیا۔ آپ نے بھی ڈٹ کر مقابلہ فرمایا مگر ظالموں نے اسقدر متواتر حملے کئے کہ حضرت کا تن انور زخموں سے چورچور ہوگیا اور آپ کے گھوڑے میں بھی چلنے کی طاقت نہیں رہی۔ آخر کار اُن ظالموں نے دور ہی سے تیر مارنے شروع کئے جب کہ قاتلِ امام حسین ؓ سنان شقی کا تیر آپ کی نورانی پیشانی پر لگا خون کا فوارہ جاری ہوگیا اُس وقت تک حضرت امام حسین ؓ کے جسم مبارک پر ۷۲ زخم نیزے اور تلوار کے آچکے تھے اور آپ اپنے رب کی بارگاہ میں مناجات پڑرہے تھے اتنی میں ایک اور ظالم کا تیر آپ کے حلق میں لگا اور زرعہ ابن شریک نے آپ کے دست مبارک پر اور شمر لعین نے آپکی گردن پر تلوار ماری اور سنان نے پشت مبارک پر نیزہ سے حملہ کیا ۔
حضرت امام حسین ؓ متواتر حملوں سے چکرا کر گھوڑے سے نیچے تشریف لائے اُس وقت نماز ظہر کا وقت تھا۔ جب زمین پر گرے تو سر کے بل سجدہ کا مقام تھا ۔ شمر آیا اور آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا امام نے آنکھیں کھول کر پوچھا تو کون ہے اُس نے کہا کہ میں شمر ہو۔ آپ نے فرمایا ذرا سینہ کھول کر دکھا اُس نے سینہ کھولا تو سفید داغ نظر آیا۔ آپ نے فرمایا میرے نانا جان محمد عربی ﷺ نے خواب میں میرے قاتل کی نشاندہی فرمائی ہے وہی نشانی تجھ میں موجود ہے۔ امام حسین ؓ نے فرمایا کہ آج جمعہ کا دن ہے اس وقت رسول کریم ﷺ کی امت کے خطباء ممبروں پہ ہونگے میرے نانا جان کی تعریفیں اور اُنکی بارگاہ میں درود و سلام پڑھتے ہونگے اور تو اُن کے نواسے کے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے جہاں رسول اللہ ﷺ بوسہ دیا کرتے وہا ںتو خنجر پھیرنا چاھتا ہے ۔ اے شمر ذرا میرے سینہ سے ہٹ جا تاکہ میں نماز پڑہوں اُس کے بعد تیری مرضی تو جو چاہے کرے۔ چنا نچہ شمر نے امام عالیمقام ؓ کا سجدہ کی حالت میں ۱۰؍ محرم الحرام ۶۰ھ یوم جمعہ ۵۶سال ۵ماہ ۵یوم کی عمر شریف میں آپ کے سرِ مبارک کو تن سے جدا کردیا۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون
بوسہ گاہِ مصطفی پر جب کہ خنجر چل گیا فاطمہ زہرا کا مرقد میں کلیجہ ہل گیا