بن غازی اہم فوجی اڈہ پر اسلام پسندوں کا قبضہ

طرابلس ۔ 31 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) اسلامی گروپس نے خصوصی افواج کے ہیڈکوارٹرس واقع بن غازی پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ فوج کے ساتھ ان کی جھڑپ میں 35 فوجی ہلاک ہوگئے۔ پورا ملک گہری لاقانونیت کی گرفت میں آ گیا ہے۔ اسلام پسندوں اور جہادیوں کے اتحاد نے اعلان کیا کہ اہم فوجی اڈہ پر کل قبضہ کرلیا گیا ہے۔ سرکاری فوج کے عہدیدار نے بھی اس اطلاع کی توثیق کردی۔ انصارالشرعیہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے امریکہ نے اپنی سیاہ فہرست میں شامل کردیا ہے۔ فیس بک پر کئی تصویریں شائع کی گئی ہیں جن میں ہتھیاروں اور اسلحہ کے ذخیروں کی نمائش کی گئی ہے جو مبینہ طور پر جہادیوں نے فوجی اڈہ سے حاصل کئے ہیں۔ لیبیا کے ہلال احمر نے کہا کہ اسے فوجی اڈہ سے 35 فوجیوں کی نعشیں دستیاب ہوئی ہیں۔ امکان ہیکہ اڈہ پر مزید نعشیں ہوں گی۔ ہلال احمر کے ترجمان محمد المصراتی نے کہا کہ بن غازی میں جھڑپوں کے دوران ہفتہ سے اب تک تقریباً 60 انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

خصوصی افواج کرنل وانس ابوقمضہ کے زیرقیادت کئی حملوں کے بعد پسپائی اختیار کرلی ہے۔ مسلح افواج ملک کی طاقتور نیم فوجی تنظیم سے برسرپیکار ہے جس میں اسے زبردست نقصانات پہنچے ہیں۔ باغیوں کی مسلح فوج کی تائید فوج سے انحراف کرنے والے لیبیا کے جنرل خلیفہ ہفتار کررہے ہیں۔ انہیں فوج کا سربراہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ہفتار نے بنیاد پرست اسلام پسند گروپ بن غازی کے خلاف جارحیت شروع کر رکھی تھی اور اسے وسط مئی کے ’’آپریشنس وقار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کل وقفہ وقفہ سے فائرنگ کی آوازیں شہر کے مختلف حصوں سے سنائی دی جارہی تھیں اور احتجاجی پرامن طور پر تخلیہ کررہے تھے جبکہ شعراء کونسل بن غازی کے انقلابی ارکان کی جانب سے تشکیل دی گئی ہے۔ الجلالہ ہاسپٹل میں اس کا اجلاس منعقد ہوا۔ باغیوں نے اس ہاسپٹل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سابق نائب وزیراعظم اور رکن پارلیمنٹ مصطفی ابو شکور دریں اثناء اغواء کنندوں کی جانب سے رہا کردیئے گئے۔ انہیں چند گھنٹے قبل ان کی قیامگاہ واقع طرابلس سے اغواء کیا گیا تھا اس سے ثابت ہوتا ہیکہ عہدیدار نیم فوجی تنظیم پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔
ڈاکٹر ابوشکور کو رہا کردیا گیا ہے اور ان کی صحت اچھی ہے۔ لیبیا نے حال ہی میں ملک کی نئی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا ہے جس کا اجلاس 4 اگست کو بن غازی میں مقرر ہے لیکن ہنگامی اجلاس ملک کے مشرقی شہر تبروک میں منعقد کیا گیا۔ ایک رکن پارلیمنٹ ابوبکر ویرا نے کہا کہ ملک کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ہنگامی اجلاس بن غازی کے بجائے تبروک میں منعقد کیا گیا۔ ملک میں لاقانونیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کئی ممالک بشمول پرتگال، نیدرلینڈس، کینیڈا، بلغاریہ نے اپنے سفارتخانہ بند کردیئے ہیں اور اپنے حملہ کا تخلیہ کروادیا ہے۔