بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی عیدالاضحی

میانمار کی ریاست راکھین کے تشدد میںاضافہ ‘ غذائی امداد معطل
ڈھاکہ ۔ 3ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) کئی روہنگیا مسلم پناہ گزینوں نے بنگلہ دیش میں نماز عیدالاضحی ادا کی ‘ جن میں کئی حال ہی میں پڑوسی ملک میانمار میں فرقہ وارانہ تشدد کے عروج کی وجہ سے بنگلہ دیش پہنچے ہیں ۔ میانمار کی ریاست راکھین میں تشدد میں اضافہ کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا مسلمان جان بچاکر فرار ہورہے ہیں تاکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرسکیں ۔ سرحدی ذریعہ عارضی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش کے دوران کئی پناہ گزین غرق بھی ہورہے ہیں ۔ یہ گذشتہ پانچ سال سے ریاست راکھین میں نسلی اور مذہبی خطوط پر گذشتہ پانچ سال سے جاری تشدد کا خونریز ترین باب بن گیا ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کی کثیر تعداد بے گھر ہوگئی ہے اور میانمار کی فوج ‘ آنگ سان ساچی کی حکومت بین الاقوامی تنقید کا نشانہ بن گئی ہے ۔ عیدالاضحی منانے کے بعد ایک 60سالہ کاشتکار دین محمد نے کہا کہ ان کے گھر میں ہر چیز موجود ہے لیکن اب وہ خود ایک پناہ گزین بن گئے ہیں ۔ عیدالاضحی کی نماز ادا کرنا ہمارا فرض ہے اس لئے اسے ہم ادا کررہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے سرحدی قصبہ کاکس بازار میں 39سالہ مقبول حسین نے کہا کہ ان کے پاس بھیڑوں‘ بکریوں اور گائیوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن وہ بحیثیت پناہ گزین نہیں جانتے کہ قربانی کسی کہتے ہیں ۔ وہ مجبور ہوگئے تھے کہ اپنی جان بچاکر فرار ہوجائیں ۔ عسکریت پسندوں نے پولیس چوکیوں پر بھی حملہ کر کے 15عہدیداروں کو ہلاک کردیا تھا اور کئی دیہات نذرآتش کردیئے تھے ۔ موسم برسات کی بارش کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر تقریبات کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپ میں جاری رہیں ۔ کئی افراد نے عیدکے قریب اسکولوں میں پناہ حاصل کرنے کی روہنگیا پناہ گزین کی بنگلہ دیش میں آمد مسلسل جاری ہے ۔ یہ پناہ گزین ریاست راکھین میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے عروج کی وجہ سے جان بچاکر بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں ‘ حالانکہ بنگلہ دیش نے مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے انکار کردیا ہے ۔ تقریباً 400 افراد میانمار کی فوج اور روہنگیا عسکریت پسندوں کی جھڑپ میں ہلاک ہوگئے ۔ 20ہزار سے زیادہ افراد دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان ایسی سرزمین پر پھنسے ہوئے ہیں جو کسی کی بھی ملکیت نہیں ہے ۔یانگون سے موصلہ اطلاع کے بموجب عالمی غذائی پروگرام نے میانمار کوغذائی اجناس کی سربراہی بند کردی ہے کیونکہ اس کی ریاست راکھیں میں فرقہ وارانہ تشدد عروج پر ہے ۔