بنگلہ دیش میں جماعت اِسلامی کے رہنما میر قاسم علی کو سزائے موت

ڈھاکہ۔ 2 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) جماعت اسلامی کے سینئر لیڈر اور بنگلہ دیش میڈیا کے سربراہ میر قاسم علی کو 1971ء کی پاکستان کے خلاف جنگ آزادی کے دوران کئے گئے مظالم کی پاداش میں خصوصی جنگی جرائم کی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ چند دن قبل ہی جماعت اسلامی کے سربراہ کو انہیں الزامات پر سزائے موت دی گئی تھی۔ میر قاسم علی کو پھانسی دی جائے گی۔ جنگی جرائم کی خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کے چیرمین نے سزا کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 62 سالہ جماعت اسلامی لیڈر کو کٹہرے میں پرسکون دیکھا گیا۔ سخت ترین سکیورٹی کے دوران عدالت نے دیگر کئی الزامات پر 72 سال کی سزائے قید بامشقت سنائی ہے، لیکن یہ سزا ان کی سزائے موت کے فیصلے کے بعد کالعدم ہوجاتی ہے۔ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے وکلاء نے کہا کہ ٹریبیونل نے 14 کے منجملہ 10 الزامات میں انہیں خاطی پایا ہے۔ انہیں جماعت اسلامی پارٹی کو مالی وسائل فراہم کرنے والی اہم شخصیت سمجھا جاتا ہے۔

وہ جماعت اسلامی کے فیصلہ سازی کے عمل میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کے فیصلوں کے خلاف بنگلہ دیش بھر میں پرتشدد واقعات دیکھے گئے تھے۔ واضح رہے کہ عدالت کایہ فیصلہ جماعت اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیر مطیع الرحمن نظامی کی سزائے موت کے بعد آیا ہے۔ شیخ حسینہ کی دوبارہ حکومت میں واپسی کے بعد یہ دوسرا اس قسم کا فیصلہ ہے، تاہم اس سے قبل ستمبر میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے اسی قسم کے ایک فیصلہ کی سماعت کرتے ہوئے سزا میں تخفیف کی تھی اور سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا تھا۔ اسی دوران دارالحکومت ڈھاکہ اور دیگر بڑے شہروں میں عام زندگی مفلوج رہی ۔ نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ نظامی کی سزائے موت کے فیصلہ کے بعد یہاں پر تشدد برپا ہوا تھا۔ اس کے پیش نظر حکومت نے میر قاسم علی کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد بھڑک اٹھنے والے امکانی تشدد کو مدنظر رکھ کر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے ہیں۔ میر قاسم علی پر الزام ہے کہ وہ چٹگانگ میں ایک ہوٹل کے اندر عارضی اذیت گاہ رکھتے ہیں جس میں سینکڑوں افراد کو اذیت دی گئی تھی۔