قدسی نہیں ہے زیست کی اب خیرو عافیت
پھرتے ہیں چار سو یہاں بمبار جابجا
بنگلہ دیش میں آئی ایس کے حملے
ایسا لگتا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے والی تنظیم آئی ایس نے بنگلہ دیش کو اب اپنا مرکز بنانے کا تہئیہ کرلیا ہے ۔ بنگلہ دیش میں آئی ایس کی جانب سے مسلسل دہشت گردانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہاںسکیولر بلاگرس کا قتل ہو کہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلاک کرنے کے سلسلے ہوں ‘ سبھی کارروائیاں آئی ایس کی جانب سے انجام دی جا رہی ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی جا رہی ہے ۔ مختلف دہشت گردانہ حملے کرتے ہوئے وہاں کے ماحول کو پراگندہ کیا جا رہا ہے اور خوف و دہشت کی فضا اور حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاںغربت حد سے زیادہ ہے ۔ غربت کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام بیرونی ممالک میں انتہائی معمولی معاوضہ پر بھی ملازمتیں کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں اور محنت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی رسہ کشی پہلے سے مسائل پیدا کرتی آئی ہے ۔ دو جماعتوں کے مابین اختلافات اور سیاسی جنگ نے بنگلہ دیش کو ترقی کی راہ پر تیزی سے سفر کرنے سے باز رکھا ہوا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے اکثر وہاں عام زندگی درہم برہم اور متاثر ہوا کرتی ہے ۔ ایک جماعت اقتدار پر ہو تو دوسری جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور متاثر ہونے والی جماعت عوام کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کا لحاظ کئے بغیر احتجاج اور ہڑتال کا راستہ اختیار کرتی ہے ۔ اندرون ملک معیشت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات بھی ناکافی ہیں اور پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت وقفہ وقفہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ غربت ‘ بیروزگاری ‘ صحت جیسے مسائل کی وجہ سے ہی ملک کی صورتحال ابتر ہے ۔ ان مسائل پر توجہ دینے میں ہی حکومت موثر ثابت نہیں ہوتی اس کے باوجود اب آئی ایس کا مسئلہ بنگلہ دیش کیلئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے ۔ یہاں آئی ایس نے ایسا لگتا ہے کہ کافی تیزی سے اپنا وجود منوالیا ہے اور یہاں وہ یکے بعد دیگرے کارروائیاں کرتی جا رہی ہے اور عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ سکیولر بلاگرس ہوں یا پھر اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں یا پھر بیرونی شہری ہوں کسی کو بخشا نہیں جا رہا ہے اور سب کوپرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
آئی ایس کی جانب سے دو دن قبل جس طرح کی کارروائی کی گئی وہ انتہائی بہیمانہ اور بے دردانہ کہی جاسکتی ہے ۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش کا عالمی سطح پر امیج اور بھی متاثر ہوا ہے ۔ یہاںبیرونی شہریوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس سے بنگلہ دیش کو مستقبل میں بھی مسائل پیش آسکتے ہیں۔ اندرون ملک صورتحال پہلے ہی ٹھیک نہیںہے اور اس پر توجہ کرتے ہوئے اس میں سدھار لانے اور بہتری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کو حل کرنے ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اسی محاذ پر ساری توانائیاں صرف کی جانی چاہئیں لیکن اب بیرونی شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے اس محاذ سے حکومت کی توجہ مبذول کی جا رہی ہے اور پھر بیرونی محاذ پر بھی حکومت کیلئے نت نئے مسائل اس طرح کے حملوں سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ پہلے ہی بنگلہ دیش میں سکیوریٹی کے مسائل کی وجہ سے کئی رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں۔ بیرونی حکام بنگلہ دیش کا دورہ کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں ایسے میں اگر آئی ایس یا داعش کی جانب سے اس طرح کی کارر وائیاں کی جاتی ہیں تو پھر صورتحال بہتر ہونے کی بجائے اس میں مزید ابتری پیدا ہوگی اور نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی اور عالمی سطح پر بھی بنگلہ دیش کیلئے مسائل میںاضافہ ہی ہوگا ۔ بنگلہ دیش کا داخلی جو ماحول ہے وہ آئی ایس کیلئے سازگار ثابت ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے آئی ایس کو یہاںاتنی تیزی سے اپنے آپ کو منوانے اور پھر اس طرح کی بہیمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ اندرون ملک حالات کو بہتر بنانے سے اس صورتحال کو قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔
حکومت بنگلہ دیش کو اس معاملہ میں تن آسانی سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ آئی ایس جیسی تنظیم عالمی سطح پر صرف نراج پیدا کرنے میں مصروف ہے اوراس کی پرتشدد کارروائیاں کسی بھی سماج یا معاشرہ میں قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ خود بنگلہ دیشی عوام کو بھی حکومت کی کوششوں میں حصہ داری نبھاتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہئے اگر انہیں اپنے ملک کو مزید تباہی سے بچانا ہے ۔ اس لعنت کے خاتمہ کیلئے حکومت اور عوام کو متحدہ طور پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے ہی سے مسائل و پریشانیوں کا شکار ملک کے حالات کو مزید ابتر ہونے اور تباہی سے بچانے میں مدد مل سکے ۔ ایسی کوششوں میں بین الاقوامی برادری کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کا فیصلہ خود بنگلہ دیش کو کرنا چاہئے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئی ایس کا بنگلہ دیش میں عروج نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ سارے جنوبی ایشیا کیلئے خطرہ بن سکتا ہے ۔