غافل جہاں کی دید کو مفت نظر سمجھ
پھر دیکھنا نہیں اس عالم خواب کو
بنک ملازمین کی ہڑتال
مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے اپنی حکمرانی کے چار سال کی تکمیل کا جشن مناتے ہوئے عوام الناس کے سامنے ترقی و خوشحالی کی ایک خوشنما تصویر پیش کی تھی لیکن حکومت کی اس خوشنمائی یا خود نمائی کو ملک گیر سطح پر بینک ملازمین کی ہڑتال نے خاک میں ملا دیا ۔ بینک ملازمین کی اس ہڑتال کو حکومت کی ناقص کارکردگی کا ایک اور ثبوت مانا جارہا ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے پریشان عوام کو اب مہینہ کے آخر میں بینکوں سے پیسہ نکالنے اور اے ٹی ایم سرویس سے استفادہ کرنے میں مشکلات درپیش ہوں گی ۔ عوام کی تکالیف کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ حالیہ چند برسوں میں خاص کر 2014 سے عام رائے یہ قائم ہورہی ہے کہ مرکزی حکومت نے ان کی جیبوں پر تالے ڈال کر انہیں کنگال کی حد تک چھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ بینک ملازمین کی یونینوں نے یہ ہڑتال اپنے ملازمین کے حق میں صرف 2 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کے مطالبہ کو پورا کرنے کرے گی ۔ جب حکومت کسی بھی شعبہ کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیتا خرابیاں پیدا ہو کر ابتری کی انتہا کو پہونچ جاتی ہیں ۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ جب حکومت چاہتی ہے کہ اس کی کارکردگی کا نام ہو اور سرکاری و بینکنگ کام ٹھیک ڈھنگ سے جاری رہے تو اسے بعض چھوٹے چھوٹے مسائل کی یکسوئی پر دھیان دینا چاہئے ۔ بینکوں کے مسائل خاص کر بینک ملازمین کی شکایات کی عاجلانہ یکسوئی کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے ۔ گذشتہ دو تین سال سے حکومت کی پالیسیاں جس میں اسکیم جن دھن ، نوٹ بندی ، مائیکرو فینانسنگ اسکیم ، مدرا اور اٹل پنشن یوجنا شامل ہیں ۔ ان تمام پالیسیوں کو بینکوں کے ذریعہ ہی روبہ عمل لایا جارہا ہے ۔ لہذا بینک ملازمین پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور یہ ملازمین کاموں کو جلد سے جلد بروقت نمٹانے کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں ۔ انہیں ان کے کام کے عوض تنخواہ ملنا ان کا حق ہے ۔ گذشتہ ایک سال سے بینک یونینوں نے وزارت فینانس پر زور دینے میں شدت پیدا کی تھی ۔ تنخواہ پر نظر ثانی معاملہ کو نظر انداز کردینے سے بینک ملازمین میں غم و غصہ پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ ملک بھر میں ایک ملین بینک ملازمین کی یہ ہڑتال مالیاتی لین دین کو ٹھپ کردی ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی بینک خدمات پہلے ہی سے نوٹ بندی اور رقومات کی کمی کا شکار ہیں ۔ اے ٹی ایمس خالی ہونے کی شکایت عام ہے اب دو روزہ بینک ملازمین کی ہڑتال کا تجارت خاص کر عوام الناس پر برا اثر پڑے گا ۔ دونوں تلگو ریاستوں کے تقریبا 60,000 بینک ملازمین بھی اس ہڑتال میں شریک ہیں ۔ مہینہ کا اختتام تنخواہوں کی ادائیگی اور بینکوں سے تنخواہوں کی مد میں رقومات کی نکاسی کے ایام شمار کئے جاتے ہیں ۔ وظیفہ یابوں کو بھی انہی دنوں کا شدت سے انتظار رہتا ہے لیکن اب دو دن تک عوام الناس کے ساتھ ساتھ وظیفہ یاب اور عمر رسیدہ ضعیفی کا پنشن حاصل کرنے والے بھی متاثر ہوں گے ۔ مودی حکومت نے جن دھن اکاونٹس کی کشادگی کا جب سے اعلان کیا ہے اس کے بعد بینکوں میں کام کاج بڑھ گیا ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں کی اسکیمات پر عمل آوری کے لیے بھی بنکوں کے ذریعہ ہی رقومات کی ادائیگیاں ہوتی ہیں ۔ مدرا اسکیم کے ذریعہ قرضہ جات کی تقسیم بھی بینک ملازمین کے ذمہ ہی ہے ۔ ان تمام حالات میں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اسکیمات کو موثر طور پر روبعمل لانے کے ساتھ بینک ملازمین کی شکایات کی یکسوئی پر توجہ دے ۔ حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں ایک دن بڑی ہوجاتی ہیں تو حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہیں ۔ مودی حکومت سے اب تک صرف ناراضگیاں ہی پیدا کرنے والے کام انجام دیتے ہیں تاہم اس حکومت کو ایک خاص مکتب فکر کے عوام کی تائید حاصل ہونے سے وہ ملک کی کثیر آبادی کو پریشان کن حالات سے دوچار کرنے کو ہی اپنی بہتر کارکردگی متصور کررہی ہے ۔