آفرین سردار علی
جب لوگ اللہ کے حکم کے مطابق زندگیاں بسر نہ کر رہے ہوں اور انھوں نے زندگی گزارنے کے دوسرے طور طریقے اختیار کرلئے ہوں تو پھر خدا کے فرض شناس بندوں کا کام یہ ہے کہ جس طرح خود اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہوں، اسی طرح دوسروں کو بھی خدا کے حکم کے آگے جھکائیں۔ یہ کام اگر کہیں نہ ہو رہا ہو، خلقِ خدا بھٹک کر اُلٹے سیدھے راستوں پر چل رہی ہو، کوئی اسے راہِ مستقیم پر چلنے کی دعوت نہ دے رہا ہو اور خدا کے بندے غفلت کی نیند سو رہے ہوں تو اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے اور اگر بھٹکی ہوئی خلقِ خدا کو راہ راست پر لانے کے لئے کچھ بندے مصروف عمل ہوں، اپنی سعی جاری رکھے ہوں، بندگانِ خدا کو صراطِ مستقیم کی جانب بلا رہے ہوں، خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور دعوتِ حق دیتے ہوئے خود بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی کر رہے ہوں تو اس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہے اور یہ حقیقی فرض شناسی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ لوگ دین حق کو بھول چکے ہیں، راہ راست سے بھٹک گئے ہے اور گمراہی کی پگڈنڈیوں پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں تو آپﷺ نے پیغامِ حق پہنچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی اور وہ ساری تکالیف برداشت کیں، جو راہِ حق پر چلنے اور ایسا کٹھن کام کرنے کے بعد پیش آنا ناگزیر تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر تنہا مَردوں نے ہی لبیک نہیں کہا، بلکہ عورتیں بھی پیش پیش تھیں۔ کسی کی دیکھا دیکھی نہیں، بلکہ فہم و شعور کی پختگی اور دل و دماغ کی آگہی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ پھر ایثار و قربانی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں، بلکہ تاریخ اسلام میں اپنے ایثار کی مثالیں قائم کردیں۔ امتِ مسلمہ ان کے احسانات سے کسی صورت سبکدوش نہیں ہوسکتی، مگر افسوس کہ آج ہماری قوم پستی کی جانب بڑھ رہی ہے اور یہ پستی اس تضاد کا نتیجہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسولﷺ کے احکام کو زبان سے تو مانتے ہیں، مگر عمل سے دُوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔