بندر کی شرارتیں

پرانے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک گھنے اور سرسبز جنگل میں بندروں کے خاندان کے خاندان آباد تھے۔ اسی جنگل میں اور بھی جانور رہتے تھے لیکن زیادہ تعداد بندروں کی تھی۔ اسی لیے آس پاس کی آبادیوں والے اسے بندروں والا جنگل کہتے تھے۔ شیر بدستور جنگل کا بادشاہ تھا۔ پرامن جنگل تھا لیکن ایک بندر میاں بڑے شریر تھے۔ ہر ایک کو تنگ کرتے، نقلیں اُتارتے، ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے۔پھول بوٹے توڑ ڈالتے۔ ان کے ابا جان ایک حکیم تھے۔ جنگلی جڑی بوٹیوں سے جنگل کے جانوروں کا علاج کرتے۔ سارے جانور، پرندے، درندے سب ہی ان کی عزت کرتے، اس لئے بندر میاں کی شرارتیں، درگزر کردیتے لیکن کبھی کبھار شکایت پہنچ جاتی تو حکیم صاحب سختی کرتے۔ کان پکر کر کھڑا کردیتے۔  ایک وقت کا کھانا بند کردیتے اور سب سے اپنے بیٹے کی شرارتوں پر معذرت بھی کرتے رہتے۔ بندر میاں کو ان کے بڑوں نے اور دوستوں نے بہت سمجھایا کہ شرارتوں اور بدتمیزی سے بازآجاؤ لیکن واہ رے بندر میاں، کبھی سکون سے نہ بیٹھتے اور سب سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے۔ کسی کو منہ چڑادیتے ، کسی کو چپت رسید کردیتے۔ غرض یہ کہ سب ہی ان سے تنگ تھے۔  ایک دن بندر میاں کو خیال آیا کہ جنگل کے بادشاہ شیر کو چھیڑا جائے۔ یہ سوچ کر وہ شیر کے غار کی طرف چل پڑے۔ دیکھا کہ شیر صاحب دھوپ سینک رہے ہیں۔ بندر میاں خوشی سے اچھل پڑے۔ اس سے اچھا موقع کہاں ملے گا؟ انہوں نے درخت سے ایک سوکھا تنکا توڑا ، اور شیر کے کان میں ڈال دیا۔ شیر کو کھجلی ہوئی تو اپنے ہاتھ سے کان پر زور سے ہاتھ مارا۔ بندر میاں خوش ہوگئے۔ وہ شرارت کرتے وقت چوکس رہتے، خطرہ محسوس کرتے تو درخت پرچڑھ جاتے ۔ شیر درخت پر چڑھ نہیں سکتا تھا۔ بندر میاں کے مزے ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد تنکا شیر کی ناک میں ڈال دیا۔ شیر کو زور کی چھینک آئی تویہ ڈر گئے اور درخت پر چڑھ گئے لیکن شیر کو سخت تاؤ آگیا۔ سوچنے لگا اس کو شرارت کی سزا ملنی چاہئے۔  شیر کو معلوم تھا کہ یہ حکیم کا بچہ ہے ، اس لئے کچھ لحاظ بھی تھا۔ مگر اسے سبق سکھانا بھی بہت ضروری تھا۔ اب بندر میاں قریب آئے تو شیر نے لپک کر انہیں دبوچ لیا اور پنجوں میں دبا کر حکیم صاحب کے پاس لاکر پٹخ دیا۔ گرج کر بولا: ’’ اگر یہ آپ کا بچہ نہ ہوتا تو اسی وقت کھاکر ہضم کرلیتا لیکن آپ کی حکمت اور اخلاق کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے مجھے بہت تنگ کیا۔ مجھے سونے نہیں دیا اور مسلسل چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔  حکیم بندر کو بہت غصہ آیا۔ اس نے درخت سے لکڑی توڑی اور بندر کی درگت بناڈالی۔ شیر سے بھی معافی مانگی اور اپنے بچہ سے بھی کہا کہ جنگل کے بادشاہ سے معافی مانگو۔شیر نے معاف کردیا لیکن وعدہ لیا کہ آئندہ شرارت نہیں کرو گے اور کسی کو تنگ نہیں کرو گے۔ بندر میاں نے سچے دل سے توبہ کرلی اور آئندہ کسی کے ساتھ شرارت نہیں کی۔ اب وہ اچھا بندر بن گیا تھا۔ سب کے کام آتا۔دکھ اور بیماری میں ساتھ دیتا اور دوسرے شریر بندروں کو بھی نصیحت کرتا کہ کسی کو تنگ کرنا بہت بری بات ہے۔