بلوچستان کے ایک موضع میں تمام مَردوں کو قتل کیا گیا، ایران کا اعتراف

غربت اور بیروزگاری منشیات کا کاروبار کرنے کی مجبوری، حکومت کی نااہلی
تہران ۔ 25 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ایران میں سیاسی انتقام کے تحت شہریوں کو ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارے جانے کے واقعات کے تناظر میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان سے متصل شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں ایرانی فورسز نے ایک گاؤں کے تمام مردوں کو پھانسی دے کر قتل کر دیا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے شہیندخت مولاوردی کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل حکام نے مشرقی ایران کے صوبہ بلوچستان کی ایک بستی کے تمام مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قتل کیے گئے تمام افراد منشیات کے کاروبار میں ملوث بتائے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان تمام افراد کو منشیات معاملات میں نہیں بلکہ سیاسی انتقامی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں طویل عرصے سے احساس محرومی کے خلاف وہاں کی سنی اکثریتی آبادی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ معاشی ابتری اور سماجی عدم مساوات کے شکار بلوچ شہریوں کے خلاف ایرانی فورسز طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے ساتھ ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے

الزامات کے تحت بڑی تعداد میں وہاں کے کارکنوں کو تختہ دار پرلٹکایا جا چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد ان کے علاوہ ہیں۔ گوکہ ایرانی صدرکی خاتون معاون خصوصی نے اس بستی کا نام ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کی شناخت ظاہر کی ہے۔ تاہم انہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے پھانسی دے کرہلاک کردہ شہریوں کے ورثاء کے لئے امدادی اقدامات ختم کرنے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پھانسی دے کر ہلاک کیے گئے افراد کے بچوں کی امداد بند کرکے مستقبل میں انہیں انتقامی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ایرانی پولیس اور جوڈیشل حکام کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طورپر بلوچستان کے ایک شہری کو جانتی ہوں جسے جیل میں ڈالا گیا۔ جیل میں ڈالے گئے ملزم کی تمام جائیداد حتیٰ کہ اس کا مکان بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے جہاں اس کی بیوی اور تین کم سن بچے رہائش پذیرتھے۔ مولا وردی نے استفسار کیا ہے کہ حکومت کی قانونی ذمہ داریاں کہاں ہیں۔ اس خاتون اور اس کے تین بچوں کی کفالت کا کون ذمہ دار ہے جن کا اکلوتا سرپرست اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کی تمام جائیداد بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ کیا ایرانی حکام کو اس خاتون اور اس کے بچوں کی احساس محرومی کا اندازہ ہے؟۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی جوڈیشل حکام کو شہریوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے اورانہیں پھانسی دینے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اگرکوئی شخص منشیات جیسے غیرقانونی کاروبار کی جانب جانے پرمجبور ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ایسے لوگوں کو پھانسیاں دینے سے قبل حکومت کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہئے۔