تاحال کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوسکی ۔ منصوبہ کے تعلق سے حکام بھی کچھ بتانے سے قاصر
حیدرآباد۔31جولائی (سیاست نیوز) دونوں شہروں کے علاقوں میں مجلس بلدیہ حیدرآباد کی غائب ہونے والی جائیدادوں کی نشاندہی کیلئے جی ایچ ایم سی نے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کی اب تک کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے بلکہ اس منصوبہ پر عمل جاری ہے یا نہیں اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں ہے بلکہ بلدی حدود میں موجود بلدیہ کی ملکیت والی جائیدادوں کے بتدریج غائب ہونے پر خاموشی سے ایسا لگتا ہے کہ خود عہدیدار نہیں چاہتے کہ ان جائیدادوں کی نشاندہی کا عمل شروع کیا جائے اوران کی بازیابی کو ممکن بنایا جائے ۔ سال گذشتہ مجلس حیدرآباد نے شہر میں زمانۂ قدیم کے بیت الخلاؤں اور پارک کی جائیدادوں کی نشاندہی کا فیصلہ کیا تھا اور کہا گیا تھا ان بیت الخلاؤں اور پارک کی جائیدادوں کی نشاندہی کے بعد ان کے حصول کیلئے اقدامات کئے جائیں گے لیکن اس مسئلہ پر اب تک کوئی اقدامات تو دور نشاندہی کے عمل کے متعلق بھی جانکاری نہیں ہے۔ شہر میں 20 سے 25سال قبل سلم علاقوں سے جڑے بڑے وسیع و عریض بیت الخلاہوا کرتے تھے اور کالونیوں میں پارک موجود تھے جن کی نگرانی جی ایچ ایم سی کی جانب سے کی جاتی تھی لیکن گذشتہ 20 برسوں کے دوران 300 تا400 مربع گز پر محیط یہ بیت الخلاء اب پوری طرح سے غائب ہیں اور یہ جائیدادیں کس کے زیر تصرف ہیں اس کے متعلق کوئی عہدیدار کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اتنے قدیم ریکارڈس کو یکجا کرکے ان جائیدادوں کی نشاندہی کرنا دشوار کن ہے لیکن بعض سنجیدہ شہریوں کا کہناہے کہ اگر بلدیہ کی جانب سے تیز اقدامات کرکے صرف بیت الخلاکی جائیدادوں کی نشاندہی اور ان کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے تو جی ایچ ایم سی کو شہر کے مصروف ترین علاقوں میں ہزاروں مربع گز اراضی حاصل ہوسکتی ہے جو کہ دیگر کئی مقاصد کیلئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔شہر میں سرکاری جائیدادوں اور ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرٹ تنظیموں کی جانب اس مسئلہ پر عدالت میں درخواست کے ادخال پر غور کیا جا رہاہے تاکہ شہر کے حدود سے غائب جائیدادوں کی نشاندہی و حصول کو یقینی بنایاجاسکے ۔ ذرائع کے مطابق شہر میں بیشتر جائیدادوں کی نشاندہی عمل میں لائی جاچکی ہیں لیکن کاروائی سے اجتناب کیا جا رہاہے کیونکہ قابضین کو ہٹانے اور جائیدادوں کے واپس حصول کیلئے قانونی کاروائی کرنی پڑیگی۔ بتایاجاتا ہے کہ جی ایچ ایم سی کے نئے قائم شعبہ ویجلنس اینڈ انفورسمنٹ کی جانب سے یہ رپورٹ طلب کی گئی ہے تاکہ اس سلسلہ میں کاروائی کو آگے بڑھا یاجا سکے۔