بلدیہ کی عظیم تاریخ ، کئی نامور شخصیتوں کے سیاسی سفر کا آغاز

حیدرآباد ۔ 22 جنوری (سیاست نیوز) گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے کارپوریٹر کی حیثیت سے منتخب ہونے کیلئے تین ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں لیکن ان میں شائد ہی کوئی امیدوار میونسپل کارپوریشن کی تاریخ سے واقف ہو۔ مجلس بلدیہ حیدرآباد ایک عظیم تاریخ کی حامل ہے اور سابق میں کئی نامور شخصیتوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بلدیہ سے کیا تھا۔ کئی ایسے قائدین گزرے ہیں اور بعض ابھی بقید حیات ہیں، جنہوں نے بلدیہ سے قومی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب بلدیہ حیدرآباد کیلئے منتخب ہونا ایک اعزاز کی بات تھی اور بلدیہ کے منتخب ارکان رائے دہندوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے لیکن آج صورتحال مختلف ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ خدمت کے جذبہ کا فقدان ہے۔ موجودہ دور کے امیدواروں کی اکثریت کو عوامی خدمت سے زیادہ شخصی ترقی اور مفادات کی تکمیل میں دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منتخب ہونے کے باوجود بہت کم افراد ہی عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ بلدیہ حیدرآباد کی تاریخ گواہ ہے کہ کئی نامور شخصیتوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مجلس بلدیہ کے انتخابات سے کیا تھا، ان میں سابق وزیر داخلہ ایم ایم ہاشم ، کامریڈ نذیرالدین ، کرنل سراج الدین ، سلطان صلاح الدین اویسی ، شریمتی سروجنی پلا ریڈی ، خواجہ نظام الدین ، غلام غوث خاں وکیل ، ایم بالیا، اکبر علی ناصری اور دوسرے شامل ہیں۔ شریمتی رینوکا چودھری نے بنجارہ ہلز بلدی حلقہ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور آج ان کا شمار قومی سطح کے قائدین میں ہوتا ہے۔ کئی سابق ارکان اسمبلی نے مجلس بلدیہ کونسلر کی حیثیت سے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا، جن میں خواجہ نظام الدین ، خواجہ ابو سعید ، احمد حسین ، شیو پرساد ، ایم مکیش ، وراثت رسول خاں ، سدھیر ریڈی شامل ہیں۔ موجودہ ارکان اسمبلی میں کئی ایسے ہیں جو پہلے بلدیہ کے کارپوریٹر منتخب ہوئے تھے، ان میں جعفر حسین معراج ، احمد پاشاہ قادری، ممتاز احمد خاں ، احمد بلالہ، جی سائنا اور تیگلہ کرشنا ریڈی شامل ہیں ۔ تلنگانہ کے موجودہ وزراء میں ٹی سرینواس یادو اور پدما راؤ نے کارپوریٹر کی حیثیت سے عملی سیاست میں قدم رکھا تھا۔ شہر کے بزرگ رائے دہندے آج بھی ان سابق کونسلرس کی خدمات کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی عوامی مفادات پر شخصی مفادات کو ترجیح نہیں دی۔ تاہم آج کی نئی نسل ان شخصیتوں سے ناواقف ہے۔ بلدیہ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو 1869 ء میں پہلی مرتبہ حیدرآباد میونسپل بورڈ اور چادر گھاٹ میونسپل بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔ حیدرآباد کو 4 اور چادر گھاٹ کو 5 ڈیویژنس میں تقسیم کیا گیا۔ شہر اور مضافات کے ان بورڈس کے نگرانکار سٹی پولیس کمشنر ہوا کرتے تھے جنہیں کوتوال بلدہ کہا جاتا تھا۔ سالار جنگ اول نے نظام کے وزیراعظم کی حیثیت سے ڈپارٹمنٹ آف میونسپل اینڈ روڈ مینٹیننس قائم کیا اور دونوں بورڈ کیلئے میونسپل کمشنر تقرر کئے گئے۔ اس وقت حیدرآباد کے حدود 55 پر محیط تھے اور آبادی 3.5 لاکھ تھی۔ 1886 ء میں چادر گھاٹ میونسپل بورڈ کا مضافاتی علاقہ کیلئے علحدہ عہدیدار کا تقرر کیا گیا تھا ، اسے میونسپلٹی کی شکل دی گئی۔ 1921 ء میں حیدرآباد میونسپلٹی کے حدود کو 84 کیلو میٹر تک توسیع دی گئی۔ 1933 میں چادر گھاٹ میونسپلٹی کو حیدرآباد میونسپلٹی میں ضم کرتے ہوئے مجلس بلدیہ حیدرآباد کا وجود عمل میں آیا اور حیدرآباد میونسپل ایکٹ کے تحت بلدیہ کو اختیارات دیئے گئے۔ 1933 ء میں بلدیہ کے پہلے انتخابات ہوئے اور اسٹانڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 1937 ء میں جوبلی ہلز میونسپلٹی قائم کی گئی جو جوبلی ہلز اور بنجارہ ہلز کے علاقوں پر محیط تھی۔ 1945 ء میں سکندرآباد میونسپلٹی قائم کی گئی۔ بعد میں سکندرآباد اور جوبلی ہلز میونسپلٹیز کو مجلس بلدیہ حیدرآباد میں  ضم کردیا گیا۔ آندھراپردیش ریاست کے قیام کے بعد 1956 ء میں حیدرآباد کو دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوا۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی تشکیل 16 اپریل 2007 ء کو عمل میں آئی اور 12 میونسپلٹیز اور 8 گرام پنچایتوں کو ضم کرتے ہوئے 17 سرکلس اور 150 وارڈ قائم کئے گئے۔ رنگا ریڈی ضلع کی جن 10 میونسپلٹیز کو حیدرآباد میں ضم کیا گیا ، ان میں ایل بی نگر ، گڈی انارم ، اپل کلاں ، ملکاجگیری ، کاپرا ، الوال ، قطب اللہ پور، کوکٹ پلی ، شیر لنگم پلی اور راجندر نگر شامل ہیں۔ رنگا ریڈی کی 8 پنچایتوں کو بھی گریٹر حیدرآباد میں ضم کیا گیا جن میں شمس آباد ، سیتامرائی، جل پلی ، مامڑپلی ، منکھال ، شاردا نگر اور رویرالا شامل ہیں۔ متحدہ ریاست آندھراپردیش کی حکو متوں نے مجلس بلدیہ حیدرآباد کے انتخابات کے انعقاد میں کبھی بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور 1969 ء تا 1986 ء حیدرآباد میں میئر اور کونسلرس نہیں تھے۔ آندھراپردیش ہائی کورٹ کی ہدایت پر این ٹی راما راؤ حکومت نے 1986 ء میں 100 رکنی مجلس بلدیہ کے انتخابات منعقد کئے۔ بلدیہ کی میعاد کی تکمیل کے بعد کانگریس حکومت نے انتخابات کو ٹال دیا اور پھر 2002 ء میں ہائیکورٹ کی ہدایت پر انتخابات منعقد کے انعقاد کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ اس وقت تلگو دیشم پارٹی نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے میئر کے عہدہ پر قبضہ کیا تھا۔ نومبر 2009 ء میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے تحت 150 وارڈس کیلئے انتخابات منعقد ہوئے اور اب جاریہ انتخابات سے بلدی ادارہ کیلئے عوامی نمائندوں کے انتخاب کا تسلسل جاری ہے۔