خود کو بے عیب ثابت نہ تم کرسکے
گنتے رہتے ہو کیوں پھر ہزاروں میں عیب
بلدیہ کی انہدامی کارروائی اور خاطی عہدیدار
دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں تعمیراتی جنگل کے وسعت پذیری کے درمیان گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے غیر مجاز تعمیرات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہدامی مہم کو جاری رکھا ہے۔ بلدیہ کی اسٹانڈنگ کمیٹی نے انہدامی کارروائی کو روک کر غیر مجاز تعمیرات کی اجازت دینے والے بلدی عہدیداروں ٹاؤن پلاننگ آفیسرس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی مگر کمشنر جی ایچ ایم سی نے اسٹانڈنگ کمیٹی کی منظورہ قرارداد پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ جس کارپوریشن میں صرف پیسے کی زبان چلتی ہے وہاں اندھا دھند طریقوں سے عمارتوں کے نقشے اور پلان بھی منظور ہوتے ہیں۔ جب بلدی عہدیداروں کو غیر مجاز تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنے کا بخار چڑھتا ہے تو وہ اپنے ہی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں اور ان کی انہدامی مہم کا وہ مکین شکار ہوتے ہیں جو بلدی ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کی مٹھی گرم کرکے اپنی عمارتیں بلند کرلیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بلدیہ کے ذمہ بداروں کسی بھی غیر مجاز عمارت کی خلاف ایکشن لینے سے قبل اس علاقہ کے متعلقہ عہدیدار کی رشوت ستانی کا نوٹ لے کر محکمہ جاتی کارروائی کی جائے مگر یہاں خاطی عہدیدار آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔ خسارہ مالک مکان یا جائیداد کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ غیر مجاز تعمیرات کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو اپنی کارکردگی میں شفافیت لانا ضروری ہے۔ مکانات کے پلان کی منظوری میں رشوت کو بڑھاوا دینے سے ہی آج شہر کا چہرہ بے ہنگم اور بے ترتیب عمارتوں کے ہجوم میں مسخ ہوتا جارہا ہے۔ جس شہر میں ایک طرف بوسیدہ عمارتوں کی کثیر تعداد ہے وہیں دوسری جانب اندھا دھند طریقہ سے عمارتیں کھڑی کردینے کا چلن بھی زور پکڑتا جائے تو انسانی زندگی گذارنے کے اصولوں اور تعمیرات کے شرائط و قواعد بالائے طاق رکھ دینا افسوسناک عمل ہے۔ عوام الناس میں شعور بیداری کے باوجود تعمیرات کے عمل میں من مانی ہورہی ہے تو اس کا سارا قصور متعلقہ عہدیداروں اور محکموں کا ہے۔ بلدی عملہ اپنی انہدامی کارروائی میں جس مستعدی کا مظاہرہ کرتا ہے وہیں زیرتعمیر عمارتوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے میں پس و پیش کرتا ہے۔ اس کی اصل وجہ رشوت کی رقم ہے۔ رشوت کو فروغ دینے والے ہر دو گروپ یعنی بلڈرس اور بدی عہدیداروں کو ابتدائی سطح پر ہی قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تو خرابیوں کا فوری تدارک ہوسکے گا۔ بلدی اسٹانڈنگ کمیٹی نے غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کی ایک اور اجازت دینے کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ سابق میں تلگودیشم حکومت کے دوران بلدیہ نے غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کی اجازت کے ذریعہ شہریوں سے فیس کی شکل میں بھاری رقم بٹورتے ہوئے شہر کے رہائشی و تجارتی نقشہ کو یکسر مسخ کردیا تھا۔ آج اس کا نتیجہ ہے کہ عمارتوں کا ایک بے ترتیب ڈھانچہ جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تسلسل جاری ہے۔ غیرمجاز تعمیرات کی رشوت خوری کے ذریعہ حوصلہ افزائی کرنے والے بلدی عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی بعض تنظیموں نے سفارش کی ہے۔ جو عہدیدار اس غلطی کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ایکشن لینے کے علاوہ تنخواہ اضافی تدریجی ترقی کے اُمور کو روک دیا جائے اور جو عہدیدار وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ہیں ان کے دور میں جن عمارتوں کو غیر مجاز طریقہ سے بلند کیا گیا ان کے وظیفہ کو روک دیا جائے اور دیگر مراعات سے محروم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ اگر محکمہ جاتی طور پر ہی ایک کامل اختیاری اتھاریٹی سخت اقدامات کرتی ہے تو بلدیہ میں رشوت ستانی کے چلن کو ختم نہ سہی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے جی ایچ ایم سی حدود کو عالمی سطح کی ترقی دینے کا عزم کیا ہے تو اس عزم کے مطابق شہر میں تعمیرات کو قواعد و شرائط کے مطابق کھڑی کرنے کو یقینی بنانا ہوگا۔ آج اراضی کی بڑھتی قدر کے درمیان تعمیرات کا ایک ایک انچ کی جگہ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر مالک مکان اور بلدی عہدیدار اُصولوں کے مطابق کام کریں تو ہر شہر، ٹاؤنس میں بلند عمارتوں کا ایک خوبصورت ماڈل نظر آئے گا۔ گریٹر حیدرآباد میں تعمیرات کے سلسلہ میں 60 ہزار خلاف ورزیاں ہونے کی چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ازخود نشاندہی کی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے ریاست میں رشوت سے پاک نظم و نسق دینے کا وعدہ کیا ہے تو اسے رشوت خور عہدیداروں کے خلاف سخت قدم اُٹھانے کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیوں کہ جب خاطی یا رشوت خور عہدیدار کی وجہ سے ایک قیمتی عمارت کھڑی کی جاتی ہے تو اس کے انہدام سے جو خسارہ ہوتا ہے اس کا مالک مکان متحمل نہیں ہوسکتا۔ حیدرآباد میں ایک مربع فٹ کی تعمیر پر 1500 روپئے کا خرچ آتا ہے اور بلدی عملہ نے چند دنوں کے اندر ہی 1.5 لاکھ فٹ تعمیرات کو منہدم کردیا ہے تو جائیداد مالکین کو 20 کروڑ روپئے کا خسارہ ہوا۔ سمنٹ، لوہا، ریتی، مزدوری کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان ایک گھر یا عمارت کی تعمیر کا تصور مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں رشوت خوری کے بارے میں غیر مجاز عمارت کھڑا کرنا خسارہ کا ہی باعث ہوگا۔ جائیداد مالکین کو ان کی مرضی پر چھوڑ کر بعدازاں عمارت کی تعمیر کے بعد انہدامی کارروائی کی نوٹسیں جاری کرنا اور منہ مانگی رشوت کا مطالبہ کرنے کا عمل ہی خرابیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ اس خرابی کو اس وقت دور کیا جاسکتا ہے جب مالک جائیداد اور بلدی عملہ دونوں دیانتدار ہوں۔
ملائیشیا ایرلائنس کا سانحہ
فضائی سفر کو محفوظ بنانے کی کوششیں دن بہ دن تشویشناک حد تک ناکام ہورہی ہیں۔ ملائیشیا کے طیارہ کے تازہ واقعہ کے بعد فضائی سفر کرنے والوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ ملائیشیا ایرلائنس کو ایک سال میں دوسری مرتبہ سانحہ کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کے طیارہMH-17 کو یوکرین میں موافق روس علیحدگی پسندوں نے مار گرایا ہے۔ اس سے پہلے بھی ملائیشیا کا ایک طیارہ لاپتہ ہوا ہے جس کا ملبہ ہنوز دستیاب نہیں ہوا۔ یوکرین میں پیش آئے طیارہ حادثہ کے پیچھے حقائق کا پتہ چلانے کے لئے مؤثر تحقیقات پر زور دیا جارہا ہے کیوں کہ طیارہ حادثہ نے عالمی سطح پر نئے بحران کو ہوا دی ہے۔ روس اور ناٹو بلاک کے رکن ممالک کے درمیان پیدا شدہ تعطل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین میں تصادم کے مسئلہ پر پہلے ہی سے روس کے خلاف متحد ناٹو ملکوں نے ملائیشیا کے طیارہ کو مار گرانے میں موافق روس باغیوں کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ طیارہ میں سوار 298 افراد کی موت واقعی ایک عالمی سانحہ ہے۔ مرنے والوں میں سائنسداں بھی تھے اور عام شہری بھی شامل ہیں۔ انسانی حیات کو لاحق سانحہ صدمہ خیز ہوتا ہے۔ مارچ میں لاپتہ ملائیشیا ایرلائنس کے MH-370 کا ہنوز پتہ نہیں چلا ہے۔ اس کے غائب ہونے کا راز شائد کبھی سامنے نہ آسکے مگر MH-17 کو مار گرانے یا حادثہ کا پتہ چلانے کے لئے بین الاقوامی تحقیقات کو وقت کا تقاضہ سمجھا جانا چاہئے۔