بلاول بھٹو کے سیاسی خواب

خواب جب حقیقت سے ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
دِل کے درد کا احساس جاں گداز ہوتا ہے
بلاول بھٹو کے سیاسی خواب
پاکستان کی داخلی سیاست میں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی طرح عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے فرزند بلاول زرداری بھٹو اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے ہیں اور انہوں نے اس سفر کے آغاز پر ایک ایسا بیان دینا ضروری سمجھا جسے عملی جامہ پہنانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے ۔ بلاول نے ملتان میں پارٹی ورکرس سے خطاب کرتے ہوئے سارے کشمیر کو پاکستان کا صوبہ قرار دیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ہندوستان سے سارا کشمیر واپس لیں گے ۔ یہ بیان در اصل بلاول کی سیاسی اننگز کے آغاز کو عوام کی توجہ کا مستحق بنانے کی کوشش ہے ۔ یہ ایسا بیان ہے جس سے ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات ‘ جو پہلے ہی نت نئے مسائل کا شکار ہیں ‘ مزید مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ داخلی سطح پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بلاول نے ایسا بیان دیا ہے جو خود پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے جہاں پاکستان کی سیول حکومت کو اپنی سنجیدگی اور ایک عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کرنا تھا وہیں اب اسے اس محاذ پر خود اپنے سیاست دانوں کی زبان پر بھی لگام دینے کی ضرورت پیش آئیگی ۔ بلاول پاکستانی سیاست میں نو وارد ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ایک زبردست سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کے آغاز پر ایسا بیان دینا ضروری سمجھا جس کو کسی بھی حال میں حقیقت کا روپ نہیں دیا جاسکتا اور شائد پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی ان کے اس بیان کو قبول کرنے تیار نہیں ہوگی ۔ کچھ جنونی گوشے یقینی طور پر اس کا خیر مقدم کرینگے لیکن اس کی قیمت پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اور رشتوں میں مزید کڑواہٹ کے ذریعہ چکانی پڑیگی ۔ بلاول بھٹو ملک کے آئندہ عام انتخابات میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ 2018 میں اپنی والدہ کی نشست لاڑکانہ سے انتخابی میدان میں اتریں گے اور اس کیلئے انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعہ حالات کو سازگار بنانا شروع کردیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا خواب ہو لیکن اس کو پاکستان کے مفاد میں نہیں کہا جاسکتا ۔ گذشتہ سال ہوئے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کراری شکست کے بعد پارٹی کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔ اس کے علاوہ فی الحال پاکستان میں جو داخلی سیاسی حالات ہیں وہ بھی نواز شریف حکومت کیلئے انتہائی ابتر ہیں۔ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کے نتیجہ میں حالات درہم برہم ہیں۔ تقریبا نراج کی کیفیت پیدا ہوتی نظر آر ہی ہے ایسے میں بلاول نے جو بیان دیا ہے اس کے نتیجہ میں ہوسکتا ہے کہ نواز شریف حکومت کیلئے حالات مزید بگڑ جائیں لیکن یہ بیان صرف داخلی سیاست پر اثر انداز ہونے تک محدود نہیں ہوسکتا ۔ اس کے اثرات یقینی طور پر ہند ۔ پاک تعلقات پر مرتب ہونگے جو پاکستان کے حق میں مثبت ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ داخلی سطح پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی یا بلاول کو کئی اور مسائل موجود تھے ۔ پاکستان کے عوام کو درپیش سنگین چینلجس کو اجاگر کرتے ہوئے اور نوجوانوں میں تبدیلی کی لہر پیدا کرتے ہوئے بلاول اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے بیان کے ذریعہ خود پاکستان پیپلز پارٹی کی روایات سے بھی انحراف کیا ہے کیونکہ ان کی پارٹی اکثر و بیشتر یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی حامی ہے ۔ بلاول کے اس بیان سے ان کی پارٹی کے معلنہ موقف کی نفی ہوگئی ہے یا پھر اس کے حقیقی عزائم بے نقاب ہوگئے ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا سوال ہے وہ ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر سمجھوتہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان و پاکستان کے مابین ماضی میں جو لڑائیاں ہوئی ہیں انکے نتائج ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان کو ہر موقع پر خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے باوجود بلاول ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر صرف داخلی سطح پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں میں ایسا بیان دے چکے ہیں جو خود ان کے ملک کیلئے سودمند نہیں ہوسکتا ۔ نواز شریف حکومت کیلئے حالات کو مزید مشکل بنانے کی نیت کے ساتھ دیا گیا یہ بیان ہندوستان کیلئے بھی کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستان کی حکومت ہو یا عوام وہ کشمیر پر کوئی بھی سمجھوتہ کسی بھی حال میں قبول نہیں کرسکتے اور نہ ملک کی سرحدات میں کسی طرح کی تبدیلی کی کوئی گنجائش ہے ۔ بلاول کے بیان سے باہمی تعلقات کی سرد مہری میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے ۔ حکومت پاکستان کو موجودہ حالات میں اپنے موقف کا اظہار کرکے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اپنی سنجیدگی کا ثبوت دینا ہوگا۔