بلاتفریق مسلم حاکم اگر نکاح کرلیا جائے تو جائز نہ ہوگا

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مالن بی کا شوہر چار سال سے مفقود الخبر ہے ۔ ایسی صورت میںکیا مالن بی عقد ثانی کرسکتی ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں اگر شوہر لاپتہ اور مفقودالخبر ہے اور با وجود تلاش پتہ نہ چلتا ہو کہ وہ زندہ ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں عورت کوچاہئے کہ قاضی (مسلم حاکم) کے پاس رجوع ہو کیونکہ قاضی کو ہی اس قسم کی تفریق کا حق حاصل ہے اور قاضی بلحاظ ضرورت بعد ثبوت واقعات وصحت دعوی مفقودیت امام مالک رحمہ اﷲکے مذہب کے موافق غائب ہونے پرچار سال گزرنے کے بعد اس کی تفریق کا حکم دیدے تو عورت عدت وفات (یعنی چار ماہ دس یوم) ختم کرکے دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے ۔ بلا تفریق مسلم حاکم اگر نکاح کرلیا جائے تو جائز نہ ہوگا۔ وقال مالک رحمہ اﷲ اذامضی لہ أربع سنین یفرق القاضی بینہ وبین امرأتہ وتعقد عدۃالوفاۃ ثم تتزوج من شاء ت۔ہدایہ کتاب المفقود۔اورردالمحتار جلد ۳ ص ۳۴۸میں ہے قال القھستانی ولو افتی بہ فی موضع الضرورۃ لا بأس بہ علی مااظن ۔ اور اسی صفحہ میں ہے وذکر ابن وھبان فی منظومہ لو افتی بقول مالک فی موضع الضرورۃ حیث لم یوجد مالکی یحکم بہ۔
نافرمان بیوی کا نفقہ
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ہندہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف بلا اجازت اپنے میکہ چلی گئی ۔ ایسی صورت میں کیا ہندہ اپنے ماں باپ کے گھر رہ کر نفقہ پانے کی مستحق ہے ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں جبکہ ہندہ بلا اجازت شوہر اپنے میکہ گئی ہے تو وہ ناشزہ (نافرمان) ہے اور ناشزہ کا نفقہ جب تک وہ شوہر کے گھر واپس نہ آئے شوہر پر واجب نہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ ۵۴۵ میں ہے: وان نشزت فلا نفقۃ لھا حتی تعود الی منزلہ والناشزۃ ھی الخارجۃ عن منزل زوجھا والمانعۃ نفسھامنہ۔
اذان اور خطبہ
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ مقررہ مؤذن کی اجازت سے ایک شخص اذان دے اور مؤذن اقامت کہے تو کیا اس میں کراہیت ہے یاکیا ؟ اگر ایک شخص خطبہ دے اور دوسرا شخص نماز پڑھائے تو شرعا ایسا عمل جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : جو شخص اذان دے اسی کا اقامت کہنا افضل ہے اگر اذان دینے والے کی اجازت سے دوسرا شخص اقامت کہے تو شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ البتہ مؤذن ناراض ہوتو دوسرے شخص کا اقامت کہنامکروہ ہے ۔ وفی الخلاصۃ وان اذن رجل واقام آخر باذنہ لاباس بہ وان لم یرض بہ الاول یکرہ …والافضل ان یکون المقیم ھوالمؤذن ولواقام غیرہ جاز البحرالرائق جلداول ص ۲۷۰ ۔
شرعا خطبہ اور نماز ایک ہی سمجھی گئی ہے ۔اس لئے ایک شخص کا خطبہ دینا اور دوسرے شخص کا نماز پڑھانا غیر اولی اور نامناسب ہے۔ بلکہ ایک ہی شخص کو چاہئے کہ وہ خطبہ بھی دے اور نماز بھی پڑھائے ۔ جیساکہ درمختار برحاشیہ رد المختار جلد اول ص ۵۷۶میںہے (لاینبغی ان یصلی غیرالخطیب )لانھا کشیئواحد۔
فقط واﷲأعلم