بقر عید سنت ابراہیمی کی زندہ یادگار

حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری
اللہ کے خلیل حضرت ابراھیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری زندگی دین فطرت اسلام کی سچی تصویر‘ آپ کی ایک ایک ادا رضائے حق کا لاثانی شاہکار اور آپ کا ایک ایک قدم ایثار و قربانی کی لافانی یادگار ہے۔ دنیا میں مال اولاد اور خود اپنی جان انسان کو سب سے زیادہ محبوب و مرغوب ہوا کرتے ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو خلیل کے خطاب سے اسی لئے نوازا گیا کہ آپ نے راہ خدا میں اپنا مال، اپنی جان اور اپنی اولاد کو محض رضائے الٰہی کی خاطرقربان کرکے اپنی زندگی کو ارشاد ربانی’’قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی ﷲ رب العٰلمینO (انعام۔۱۶۳)‘‘ یعنی ’’بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے‘‘ کا سچا آئینہ دار بنا دیا۔

عید الاضحی تو دراصل اللہ کے خلیل کی اسی قربانی کی عظیم اور زندہ یادگار ہے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے مقدس نبی نے اپنے دل کی گہرائی سے آخری عمر میں اولاد کے لئے دعائیں مانگی تھیں، مناجات کیں تھیں، سجدوں کی نذر پیش کی تھی۔ اور بھیگی پلکوں کے سائے میں خالق مطلق سے بیٹے کی درخواست کی تھی اور جب دعائے خلیل کو شرف قبولیت حاصل ہوا تو چمن زار آرزو میں بہاریں مسکرانے لگیں، گھر کا چشم و چراغ روشن ہوگیا اور جب یہ غنچۂ تر ایک شاداب پودے کی شکل میں رعنائی بکھیرنے لگا تو وہ کیسی آزمائش کی گھڑی ہوگی جبکہ خدائے عز و جل کے حکم کی محض تعمیل میں ایک دن وہی باپ اپنی تمنائون کے مرکز ‘ اپنی آرزوئوں کے پیکر اور اپنے ارمانوں کے حاصل سے جنگل بیابان کی بے آب و گیاہ ‘ لق و دق سرزمین پر مشورہ طلب کررہا ہے کہ ’’یٰبنیّ انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا ترٰی( صافات۔۱۰۲)‘‘ یعنی ’’ ائے جان پدر ! محض خدائے برتر کی خوشنودی کی خاطر ہم تمہیں ذبح کرنا چاہتے ہیں بتائو اس سلسلہ میں تمہاری رائے کیا ہے؟‘‘ اور مقدس باپ کے سعادت فرزند نے والد محترم کے علم کو یقین کا جامہ پہناتے ہوے اور جذبۂ ایثار کو نور علی نور بناتے ہوے عرض کیا ’’یابت افعل ما تؤمر ستجد نی ان شاء اﷲ من الصٰبرین ( صافات۔۱۰۲)‘‘ یعنی’’ میرے پدرِ بزرگوار آپکو جس بات کا حکم دیا گیا ہے بغیر کسی پس و پیش کے اسے کر گذرئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ ‘‘

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
ایسی قربانی کی دنیا میں مثال نہیں کہ ایک طرف باپ اپنی آرزوئوں اور تمنائوں کی قربانی پیش کررہا ہے تو دوسری طرف سعادت شعار صاحبزادے اپنی متاع حیات کی قربانی پیش کررہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک نئے عزم کے ساتھ کائنات گیتی پر تسلیم و رضا کا ایک نرالا امتحان دینے کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ وادی منیٰ کی قربان گاہ میں موجود ہیں ۔ آنکھوں پر پٹی باندھے ہوے تاکہ شفقت پدری سے کہیں ہاتھ کانپ نہ جائے اور ہاتھ میں چھری لئے ہوے زائد از نوے سال کا بوڑھا باپ ہے کہ مناجات سحر کے بعد خاندان کا جو چشم و چراغ عطا ہوا تھا اب اُسی اور اُسی محبوب جگر گوشہ چراغ کو گل کرنے کیلئے اُس کی آستینیں چڑھ چکی ہیں۔ اسمٰعیل علیہ السلام لیٹ گئے اور اللہ کے خلیل نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی فوراً رحمت حق جوش میں آئی اور پکار اُٹھی ’’یابراھیم قد صدقت الرؤیا(سورئہ صافات۔۱۰۵)‘‘ یعنی ’’(اے ابراھیم!) بیشک تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا‘‘ قدرت کا عجیب کرشمہ تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام الگ کھڑے مسکرا رہے تھے اور آپ کی جگہ ذبح ہونے والا ایک دنبہ تھا جسے حکم الٰہی سے حضرت جبرئیل علیہ السلام جنت سے لاکر اسماعیل علیہ السلام کی جگہ لٹا دئے تھے۔ آج کوئی ہزارون برس کا طویل ترین زمانہ گذر چکا ہے جس کے دوران نہ جانے کتنی یادگاریں بنتی گئیں اور فنا ہوگئیں۔ کتنے انقلابات رونما ہوے اور کتنی تاریخیں بن کر قصہ پارینہ ہوگئیں۔ لیکن تاریخ کی کوئی تبدیلی اور زمانے کا کوئی انقلاب آج تک اللہ کے خلیل و ذبیح کے بے مثال ایثار و قربانی کی حقیقت کو فراموش نہ کرسکا۔ باپ بیٹے کی یہ قربانی اللہ کی نظر میں اتنی مقبول ہوگئی کہ یہ سنت خلیلی تا صبح قیامت زندہ و پائندہ ہوگئی۔ ہر سال لاکھوں فرزندان توحید مخصوص متبرک ایام میں قول ہی سے نہیں بلکہ عملی نمونہ بن کر اس سنت ابراہیمی کو تازہ کیا کرتے ہیں۔ جسے ایک دوامی ثبات حاصل ہونے کا راز یہ بھی ہے کہ اس قربانی کے یادگار و مقدس واقعہ میں جہاں اللہ کے خلیل و ذبیح کے قلب میں خلوص ، جذبات میں صداقت اور فکر و نظر میں للہیت کارفرما تھی۔ وہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی گہرائی سے نکلی زبان سے بار بار کہہ رہی تھی ’’اے اللہ ! پھر سے ہماری نسل میں ایسی ہی امت پیدا فرما جو ہماری طرح اسلام پر قائم اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہو۔‘‘

خلیل اللہ علیہ السلام کے یہی وہ دعائیہ کلمات ہیں جس کے پس منظر میں قوموں کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ چنانچہ نسل ابراہیم میں ہی امت مسلمہ کا انعام ایزدی عطا ہوا۔ جو رہتی دنیا تک اس عظیم یادگار قربانی کو زندہ رکھے گی۔ اور ساتھ ساتھ ہر نماز مین حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی اٰل پر صلوٰۃ و برکات کا خراج عقیدت پیش کرتی رہے گی۔
ہر سال لاکھوں جانوروں کی دی جانے والی یہ قربانیاں مشیت ایزدی‘ رضائے الٰہی اور سنت ابراہیمی کے قطع نظر ایک قانون فطرت بھی ہے۔ ایک فرانسیسی ماہر حیوانات سائنس داں اپنے تحقیقی مقالہ میں رقمطراز ہے کہ اسلامی مذہب کے پیرو اگر ہر سال بے شمار جانورں کی اس طرح قربانی نہ دئے ہوتے تو آج روئے زمین پر بے حد و شمار اور ناقابل قیاس تعداد میں اس قدر کثیر جانورں کی آبادی موجود رہتی کہ انسانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا اور انسانی زندگی کے لئے درکار سارے وسائل خورو نوش کا ایک قابل لحاظ حصہ ان جانوروں کی نذر ہوجاتا۔
اگرچہ قربانی بظاہر ایک جانور کو خدا کے نام پر ذبح کردینے کا نام ہے لیکن درحقیقت اس کے پیچھے ایک خاص فداکارانہ جذبۂ اخلاص ہوتا ہے جو قلب و دماغ کو ایثار ‘ تقویٰ اور ایمان کے انوار سے منور کردیتا ہے جیسا کہ قرآن خود فرماتا ہے کہ
’’لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولٰکن ینالہ التقوٰی منکم(حج۔ ۳۷)‘‘ ’’خدا کے دربار میں نہ قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون۔ ہاں البتہ تمہاری پرہیزگاری ہی باریاب الٰہی ہوتی ہے‘‘گویا یہ قربانی اپنی ہی خواہشات و جذبات اور زندگی کی اپنی متاع عزیز کو تک قربان اور نثار کردینے کی حسین تمہید اور ایک روشن باب کا آغاز ہے۔

جب تک کہ براہیم کی فطرت نہ ہو پیدا
قربانی بھی آزر ہے عبادت بھی ہے نمرود
بقر عید اسی جذبۂ اخلاص کو بیدار کرنے کا دوسرا نام ہے اور یہ اسلامی عید ایک نہایت بلند تخیل پر مبنی ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں عیدوں کا جو مزاج دیا گیا ہے وہ نہایت مہذب، شائستہ ، پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے لبریز ہے جس میں لہو و لعب ، خرافات،لغویات اور فضولیات کی کوئی گنجائش نہیں ورنہ یہ ’’یوم عید‘‘ جاکر ’’یوم وعید‘‘ بن جاتا ہے۔ اسلام عید کے موقع پر ہر ایسی جائز خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے جو کسی بھی قسم کی دینی و اخلاقی بے راہ روی سے پاک و صاف ہو۔ نیز اپنی مسرت کے ساتھ ساتھ دیگر مستحقین کی خوشی بھی ملحوظ رہے۔ عید قرباں کا روزِ سعید دین کی اسی عظمت و برتری کے اظہار کا ایک مقدس موقع ہوتا ہے۔ اس مبارک دن اسلامی مزاج کا بانک پن اپنی پوری جلوہ سامانیوں اور تابناکیوں کے ساتھ روشن نظر آتا ہے ۔ قرآن مجید کے سورئہ کوثر کی تیسری آیت میں حکم ربانی ہے ’’فصل لربک وانحرO(کوثر۔۲)‘‘یعنی ’’تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘ جس میں دو قسم کی عبادتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک تو نماز بدنی عبادت ہے اور دوسری قربانی جو مالی عبادت ہے۔ اس ارشاد کی تعمیل میں بدنی ومالی دونون عبادتوں کا روح پرور اجتماعی مظاہرہ عید قرباں کے دن پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ عالم اسلام میں ہر شہر، قریہ و دیہات کے مرکز عید گاہ پر قرب و جوار کے سب مسلمان جمع ہوکر ایک امام کے پیچھے پہلے اپنے معبود حقیقی کے سامنے سر نیاز جھکا دیتے ہیں۔ سب کے قلوب ایک ہی جذبۂ ایثار و قربانی سے سرشار اور ایک ہی سرور روحانی سے مست و لبریز ہوتے ہیں۔ اور جن کے پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی ہوتی ہے ۔ عید گاہ میں ادا کیا جانے والا نماز کا دوگانہ جس اتحاد و اتفاق ‘ اخوت و مساوات اور اجتماعی ہم آہنگی کے مظاہروں کا آئینہ دار ہوتا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ نماز عید کے فوراً بعد مستطیع اصحاب کو شریعت کا حکم ہے کہ وہ قربانی کرنے کا مقدس فریضہ انجام دیںتاکہ عید کے دن شان و شوکت کی نمائش اور لباس فاخرہ کی چمک دمک سے دل میں کبر و غرور کا جذبہ نہ پیدا ہوجائے اور مسلمان کسی بے راہ روی کا شکار ہوکر لہوو لعب کی جانب مائل نہ ہوجائے۔ ساتھ ساتھ قربانی کے گوشت کی غرباء و مساکین میں تقسیم اور خیر و خیرات کے ذریعہ انعامات ربانی اور مسرتوں کی فراوانی میں ان مستحقین کو بھی اپنا شریک وحصہ دار بنائیں۔ اس طرح سنت ابراہیمی کی تعمیل ظاہری و معنوی ہر لحاظ سے خوشنودی و رضائے کردگار کا آئینہ دار ہو جائے گی۔رب العزت ہم سب کو قربانی کے مقصد و غایت سے آشنا فرمائے اور زندگی بھر للہیت کے جذبہ سے سرشار رکھ کر ایثار کا عملی نمونہ بنائے۔آمین