سلیم اور جاوید بہت ہی قریبی دوست تھے، یوں تو ان میں کوئی برائی نہیں تھی لیکن ایک کمی ضرور تھی۔ وہ کسی بھی شخص یا واقعہ پر بغیر سوچے سمجھے اپنی رائے دینے لگتے تھے۔ اندازہ کے مطابق ان کا رائے دینا کبھی بھی صحیح نہیں ہوتا تھا۔ نتیجتاً دونوں ہی مذاق کا سبب بن جاتے تھے۔ ان کے والدین، عزیز و احباب سبھی انہیں اس عادت کو چھوڑ دینے کیلئے کہتے تھے۔
ایک دن ان کے گھر والوں نے ایک ناٹک کیا، انہوں نے ایک شخص کو دونوں کے سامنے بھیجا جو لنگڑ کر چل رہا تھا۔ اس کود یکھتے ہی سلیم بولا ’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ آدمی پیدائشی لنگڑا ہے۔‘‘ جاوید نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’ بالکل نہیں، مجھے یقین ہے کہ یہ کسی حادثے میں لنگڑا ہوا ہے۔‘‘ دونوں اپنے اپنے اندازے کو صحیح ماننے کا ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے لگے۔ یہاں تک کہ بحث جھگڑے میں بدل گئی۔ اس سے پہلے کے ہاتھا پائی کی نوبت آتی، لنگڑنے والا آدمی ان کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے لنگڑنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ’’ میں لنگڑ کر اس لئے چل رہا تھا کہ میری چپل ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ اتنے میں ان کے گھر کے لوگ بھی وہیں پہنچ گئے اور ان کو سمجھایا کہ بغیر سوچے سمجھے بات کرنے والا انسان ہمیشہ دوسروں کی نظروں میں پست رہتا ہے۔ دونوں سرجھکائے سنتے رہے اور آئندہ اس عادت کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔