بصیرت سے محروم طاقتیں

دہشت گردی‘ اموات اور دل آزاری کیلئے اظہار خیال کی آزادی پر عالمی قائدین اور طاقتور ملکوں کا نظریہ جب جانبدارانہ و غیر انسانی رویہ کا مظہر ثابت ہوتا ہے تو پھر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بھی امتیازات پیدا کئے جاتے ہیں ۔ آج جن ملکوں اور عالمی قائدین نے پیرس دہشت گرد حملوں کی مذمت کرنے کیلئے فرانس میں ریالی نکالی اور اس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔ اس ریالی میں شرکت نہ کرنے کا افسوس کرتے ہوئے امریکہ نے بھی اپنی پشیمانی کا اظہار کیا ہے ۔ فرانس کے اخبار شارلی ہیبڈو کے دفتر پر دہشت گرد حملہ میں ہلاک 17لوگوں کی یاد میں فرانس بھر میں 30لاکھ افراد نے غم و اندوہ کا جلوس نکالا اور مہلوکین کے ورثاء سے اظہار یگانت کیا ۔ دہشت گردی کی مذمت کی گئی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان عالمی قائدین کے رویہ میں دہشت گردی کے دوہرے معیارات دیکھے گئے ہیں کیونکہ اس طرح کی دہشت گردی کا شکار شمال مشرقی نائجریا میں بھی ہزاروں افراد ہورہے ہیں ان کے حق میں کسی بھی عالمی لیڈر اور امن پسند عوام نے آنسو نہیں بہائے اور اُف تک نہیں کیا تو پھر دہشت گردی کے دو واقعات پر اس طرح کے امتیاز سے کیا اس لعنت کے خاتمہ کیلئے دیانتدارانہ کوشش ہوسکتی ہے ۔ فرانس اور نائیجریا میں اگر انتہا پسندانہ نظریات کے حامیوں نے ایک ہی طرح کا رول ادا کیا ہے ۔ فرانس میں صرف 17جانیں ضائع ہوئیں اور اس واقعہ سے تقریباً ایک ہفتہ قبل بوکو حرم نے 2000 انسانوں کا قتل عام کیا تھا ۔ اس واقعہ کے خلاف کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی سڑکوں پر نکل کر ریالی نکالی۔

آخر فرانس کے مہلوکین اور نائیجریا کے بدنصیب انسانوں میں فرق کیا ہے ۔ ساری دنیا میں انصاف پسند عوام کا یہی سوال گشت کررہا ہے کہ عالمی طاقتوں ‘ بڑے ملکوں کی دوہری پالیسی نے دنیا کے سامنے ان کے انسانی جذبات کو آشکار کردیا ہے ۔ فرانس کے اس اخبار نے اپنی اظہار خیال کی آزادی کے بیان میں مذہبی دل آزاری پے درپے واقعات انجام دینے کا سینہ ٹھوک کر اعلان کیا ہے ۔ اسطرح کی حرکتوں کو ایک گروپ جراتمندانہ فیصلہ قرار دیا ہے تو دوسری طرف فکر صحیح رکھنے والوں نے اس حرکت کو سراسر شرانگیزی اور اشتعال انگیزی کے ذریعہ امن میں خلل پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ فرانس ہو یا دیگر مغربی ملکوں کے قائدین کا مسئلہ ہو ان کا سب سے افسوسناک المیہ یہ ہے کہ ان قائدین میں بصیرت کی کمی ہے ۔ اگر یہ لوگ شارلی ہیبڈو واقعہ پر اظہار یگانگت کرتے ہوئے مہلوکین کیلئے سوگ مناتے ہیں تو پھردیگر ملکوںمیں خاص کر مشرقی وسطیٰ افغانستان ‘ پاکستان ‘ عراق ‘ شام اور نائیجریا میں ہونے والے قتل عام پر خاموش کیوں ہیں ۔ نائجیریا کے واقعات کو تو عالمی میڈیا بری طرح نظرانداز کرتا آرہا ہے ۔ فرانس کی کہانی کو پیش کرنے میں پھرتی دکھانے والا میڈیا اپنا پیشہ وارانہ فریضہ فراموش کرتا ہے تو یہ صد افسوس ہے ‘ اس کو بدترین ‘ غیرانسانی تبدیلی کہی جاسکتی ہے ۔

اگر مہذب معاشرے میں آزادی اظہار کے نام پر کچھ بھی دل آزاری کی جاتی ہے تو یہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ انقلاب فرانس کے دوران انسانی حقوق سے متعلق اعلامیہ میں اظہار خیال کی آزادی کو سب سے زیادہ قیمتی حقوق میں شمار کیا گیا تھا لیکن یہی معاشرہ مغربی میڈیا کی خود ساختہ اظہار خیال کی آزادی کے ذریعہ نسل کشی کی حمایت کرتا ہے تو ایسے میں انسانی حقوق کا ماتم کرنے والی طاقتیں خاموش رہتی ہیں ۔فرانس کے اخبار شارلی ایبڈو نے اپنے آئندہ شمارے میں پیغمبر اسلام کا عکس شائع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس شمارے کے 30لاکھ کاپیاں شائع کر کے مارکٹ میں پھیلایاجائے گا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ اتوار کو فرانس بھرمیں خاص کر پیرس میں نکالی گئی ریالی میں شرکت کرنے والے دنیا کے 40قارئین اخبار کی اس تازہ حرکت کو حق بجانب قرار دیں گے اور اس کے ردعمل کی صورت میں کوئی سانحہ ہوتا ہے تو وہ اس واقعہ کیلئے غیر جانبدارانہ طور پر کس کو قصوروار متصور کریں گے ‘ جو ممالک آج فرانس واقعہ پر ماتم کا بھونڈہ مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی بربریت کے علاوہ وسط افریقی جمہوریہ روانڈا ‘ یوگانڈا ‘ سرالیون اور اس نائیجریا کے قتل عام کے کلچرکی پر آنکھیں کیوں بند رکھی ہیں ۔ اس طرح اس کی خاموشی ابتر حالات کو مزید ہوا دے گی ۔