بشار الاسد کا انتخاب اور مغربی ممالک

انسان دم بخود ہے تماشوں کے درمیاں
جمہوریت کا ناچ ہے لاشوں کے درمیاں
بشار الاسد کا انتخاب اور مغربی ممالک
شام میں بشارالاسد کی حکومت کو ملک کے عوام نے تیسری مرتبہ اقتدار سونپا ہے اور بشار الاسد 88.7 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے تیسری معیاد کیلئے شام کے صدر منتخب ہوگئے ہیں ۔ شام میں جس طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس بار انتخابات کی کافی اہمیت تھی ۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سرکاری اور اپوزیشن گروپس کی افواج کے مابین لڑائیاں اور معرکے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ شام میں سرکاری فوج اور باغیوں کے کچھ گروپس پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کے الزامات عائد ہوتے جا رہے ہیں اور ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات تو عام ہیں۔ علاوہ ازیں جنگی جرائم کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ صورتحال اتنی سنگین ہوتی جا رہی ہے کہ شام کے عام عوام کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں اور انہیں بے طرح مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ باغیوں کی جانب سے حکومت کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ وہ کبھی ایک شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کبھی دوسرے شہر کو نشانہ بناتے ہیں۔ سرکاری افواج کی جانب سے باغیوں کے خلاف کارروائیاں بھی بلا رکاوٹ جاری ہیں ۔ وہ ایک کے بعد کارروائی میں باغیوں کے قبضوں کو مختلف مقامات سے برخواست کرنے کی تگ و دو میں جٹے ہوئے ہیں۔ بشارالاسد کی کارروائیوں کو جہاں مغربی ممالک کی شدید تنقیدوں کا سامنا ہے وہیں روس اور دوسرے ممالک حکومت کے حامی اور اتحادی ہیں۔ اپوزیشن کے مسلح گروپس کو مغربی ممالک کی تائید و حمایت ہر طرح سے حاصل ہے ۔ انہیں پیسہ اور رقومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہیں ہتھیاروں سے بھی مسلسل لیس کیا جارہا ہے ۔ اس وجہ سے شام کی صورتحال میں بہتری پیدا ہونے کی بجائے مسلسل ابتری پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں سے باز آنے کو تیار نہیں ہیں اور مصالحت کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ اس طرح کی صورتحال میں وہاں انتخابات کا انعقاد ایک رسمی کارروائی کی طرح ہو گیا تھا اور وہاں حسب توقع بشارالاسد کو کامیابی حاصل ہوئے ۔ وہاں جملہ ووٹوں کا 88.7 فیصد حاصل کرتے ہوئے بشارالاسد کو تیسری مرتبہ اقتدار حاصل ہوگیا ہے ۔
مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے حلیفوں نے بشار الاسد کی انتخابی کامیابی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ انعقاد عمل میں نہیں آیا تھا اور بزور طاقت یہ ووٹ حاصل کئے گئے ہیں۔ یوروپی یونین نے بھی انتخابی نتائج پر تنقید کی ہے اور امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے انتخابات کو غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔ دوسری جانب سے کئی مختلف ممالک کے وفود نے ‘ جنہوں نے انتخابات کے دوران شام کا دورہ کیا تھا ‘ یہ ادعا کیا ہے کہ انتخابات بالکل شفاف انداز میں منعقد کئے گئے ہیں۔ امریکہ اور یوروپی یونین کا کہنا ہے کہ شام میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہے جہاں عوام کی اکثریت اپنے حق رائے دہی سے استفادہ ہی نہیں کرسکی ہے ۔ مغربی ممالک کے رد عمل کو توقع کے مطابق کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی حال میں بشارالاسد کو اقتدار سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں اور وہ عوام کی تائید حاصل کرنے کے عمل کو بھی قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ در اصل یہ ممالک شام کے باغی گروپس کی زبان میں بات کر رہے ہیں ۔ باغی گروپس نے بھی انتخابی عمل کو غیر جمہوری اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے ۔ برطانیہ نے شام کے انتخابی عمل کو جمہوریت کی توہین قرار دیا ہے اور کہا کہ بشارالاسد کو انتخابات سے قبل ہی اقتدار پر برقرار رہنے کا حق حاصل نہیں تھا اور انتخابات میں چونکہ عوام کی اکثریت اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرسکی ہے اس لئے اس رائے دہی کو قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ مغربی ممالک اس عمل کو کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
یہ درست ہے کہ شام میں جو صورتحال ہے وہ انتہائی سنگین ہے اور وہاں انسانیت کے خلاف جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کیلئے اگر بشارالاسد حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو باغی گروپس بھی برابر کے ذمہ دار ہیں اور باغی گروپس کی تائید و حمایت کرنے کی وجہ سے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کو بھی ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ صورتحال ہر ایک کیلئے قابل تشویش ہے اور سب سے زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا لاکھوں کروڑوں شامی باشندوں کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ صورتحال کا استحصال کرنے کی کوششیں جب تک جاری رہیں گی اس وقت تک وہاں حالات کو معمول پر لانے میں کامیابی نہیں مل سکے گی ۔ امریکہ اور دوسرے حواری ممالک کو چاہئے کہ وہ شام کے داخلی معاملات میں کسی بھی حیلے بہانہ سے مداخلت کرنے کی کوششیں ترک کردے اور شام کے عوام کو یہ موقع اور اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا تعین کریں۔