دمشق 5 جون (سیاست ڈاٹ کام) صدر شام بشارالاسد شام کے صدارتی انتخابات میں 88.7 فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسری میعاد کے لئے صدر منتخب ہوگئے۔ انتخابی نتائج کا اعلان پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد اللحم نے پریس کانفرنس کے دوران بشارالاسد کے شام عرب جمہوریہ کا صدر منتخب ہونے کا اعلان کیا۔ بی بی سی کے بموجب بشارالاسد کی کامیابی سے اُن کے حامیوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ حکومت نے حال ہی میں نمایاں دفاعی فوائد حاصل کئے ہیں اور باغی گروپس میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔
اِس خبر سے رائے دہی کے عمل پر امریکہ اور اُس کے حلیف ممالک بشمول یوروپی یونین کی جانب سے سخت تنقید کی جارہی ہے۔ یوروپی یونین نے انتخابات کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ امریکہ جان کیری نے کہاکہ انتخابات کا عمل غیر جمہوری ہے۔ آبادی کی اکثریت حق رائے دہی سے استفادہ نہیں کرسکی۔ تاہم دمشق کا دورہ کرنے والے غیر ملکی وفود جن میں 30 ممالک بشمول ایران، روس اور ونیزویلا شامل تھے، انتخابی عمل کے شفاف ہونے کا دعویٰ کیا۔ لندن سے موصولہ اطلاع کے بموجب برطانیہ نے صدر شام بشارالاسد کے دوبارہ انتخاب کو ایک ’’توہین‘‘ قرار دیا۔ اور کہاکہ رائے دہی صرف اُن کی آمریت برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ بشارالاسد 2000 ء میں اپنے والد کے جانشین ہوئے تھے۔ اُنھیں 88.7 فیصد ووٹوں سے آج دوبارہ صدر منتخب کرلیا گیا جبکہ باغیوں نے رائے دہی کو ایک ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیا۔ دریں اثناء باغی گروپس میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔
وزیر خارجہ برطانیہ ہیگ نے آج جاری کردہ بیان میں کہاکہ بشارالاسد انتخابات سے پہلے ہی اقتدار پر قائم رہنے کا اخلاقی حق کھوچکے تھے اور انتخابات کے بعد اِس کی توثیق ہوگئی ہے۔ رائے دہی خانہ جنگی کے درمیان منعقد کی گئی۔ جبکہ لاکھوں افراد حق رائے دہی سے محروم رہے۔ اُنھیں بنیادی انسانی امداد سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ اسد کے بے رحمانہ جبر کی بھرپور مخالفت جاری ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں انتخابات کا انعقاد اپنی آمریت برقرار رکھنے کی ایک کوشش کے سوائے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ شامی عوام کی توہین ہے۔ عوام آزادی اور حقیقی سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ حکومت حامی اخبارات کے صفحہ اول پر بشارالاسد کی تصویریں اُن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی خبروں کے ساتھ شائع کی گئی ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن پروگرام بھی اِسی خبر سے بھرے پڑے ہیں۔
برسر اقتدار بعث پارٹی کے روزنامہ نے عہد کیاکہ شامی عوام کو باغیوں کے حملوں کے خلاف اپنی مستقل مزاجی کا ثبوت دینا ہوگا اور ملک کی ازسرنو تعمیر کرنی ہوگی۔ روزنامہ البعث کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ تاریخی رائے دہی کے بعد شام کے شہریوں نے کہاکہ خود ایک فوجی، سیاسی اور سماجی مہم پر ہونے کا اظہار کردیا ہے۔ روزانہ اُن کے علاقوں پر مارٹر فائرنگ کی جاتی ہے، اِس کے باوجود انھوں نے ملک کی تعمیر نو کے عہد کا اعادہ کیا ہے۔ ایک کروڑ 58 لاکھ اہل رائے دہندوں میں سے ایک کروڑ 16 لاکھ نے حکومت زیرقبضہ علاقوں میں حق رائے دہی سے استفادہ کیا۔ 24 افراد رائے دہی کے دن حملوں میں ہلاک ہوئے۔ مبصرین نے الزام عائد کیا ہے کہ کئی افراد جنھوں نے اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کیا، وہ بشارالاسد کے حامی نہیں تھے بلکہ خوف کے تحت ووٹ دے رہے تھے۔ بشارالاسد کا خاندان 40 سال سے شام پر آہنی پنجہ کے ساتھ حکومت کررہا ہے۔