برے اخلاق سے بچو

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ’’کون آدمی بہتر ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر وہ شخص جو مخموم دل اور زبان کا سچا ہو‘‘۔ (یہ سن کر) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’زبان کے سچے کے تو ہم جانتے ہیں (کہ زبان کا سچا اس شخص کو کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہ بولے) لیکن ’’مخموم دل‘‘ سے کیا مراد ہے؟‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مخموم دل وہ شخص ہے، جس کا دل پاک و صاف ہو، پرہیزگار ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو،

حد سے تجاوز نہ کیا ہو اور اس میں کدورت و کینہ اور حسد کا مادہ نہ ہو‘‘۔ (ابن ماجہ و بیہقی) لفظ ’’مخموم‘‘ اصل میں ’’خم‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ’’جھاڑو دینا، کوڑے کرکٹ اور گندگی سے زمین اور کنویں کو صاف کرنا‘‘۔ پس ’’مخموم دل‘‘ سے مراد وہ شخص ہے، جس کا دل غیر اللہ کے غبار سے صاف ستھرا ہو اور برے اخلاق و احوال اور فاسد افکار و خیالات سے پاک ہو، جس کو ’’سلیم القلب‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کی تعریف اللہ تعالی نے ان الفاظ میں فرمائی ہے ’’الا من اتی اللّٰہ بقلب سلیم‘‘۔ اسی مراد کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’’نقی‘‘ اور ’’تقی‘‘ کے ذریعہ واضح فرمایا۔ چنانچہ ’’نقی‘‘ کے معنی ہیں، وہ شخص جس کا دل اور باطن غیر اللہ کی محبت سے پاک و صاف ہو اور ’’تقی‘‘ کے معنی ہیں فاسد و بیہودہ افکار و خیالات، لغو عقائد اور برے اعمال و خیال سے بچنے والا۔
صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ’’مخموم القلب‘‘ کے معنی دریافت کئے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت دریافت کرنے والے صحابہ کرام کے ذہن میں لفظ ’’مخموم‘‘ کے لغوی معنی محفوظ نہ رہے ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایسے نادر الفاظ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ عربی زبان پر پوری دسترس رکھنے کے باوجود بھی ان کے مفہوم کو سمجھنا مشکل ہو جاتا تھا۔