بری عادت کا انجام

کسی شہر میں ایک بچہ رہتا تھا ۔ اس کا نام اویس احمد تھا ۔ وہ بہت نیک اور فرما نبردار تھا ۔ اس کا اسکول میں ایک ہی دوست تھا ‘ جس کا نام حلیم تھا ۔ حلیم بہت ذہین تھا لیکن اس میں ایک برائی تھی وہ یہ کہ اسے چوری کرنے کی عادت پڑ گئی تھی ۔ اس بات کا علم اویس کو ہوگیا تھا وہ حلیم کو بہت سمجھاتا تھا کہ چوری کرنا بری عادت ہے لیکن وہ سنی ان سنی کردیتا ۔
اس کے بعد اس نے باقاعدگی سے چوری کرنا شروع کر دی ۔ حلیم اب اکثر اپنے دوستوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چرا لیتا تھا ۔ اویس احمد نے اس کو بہت سمجھایا لیکن اس نے اویس احمد سے بھی دوستی ختم کر دی ۔ اب اس نے خراب لڑکوں میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا ۔ اب یہ لڑکے بڑی چوریاں کرنے لگے تھے ۔ کچھ دن کے بعد جب ان کی ہمت بڑھ گئی تو ان لڑکوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ وہ بینک لوٹیں گے ۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ جیسے ہی وہ بینک لوٹنے گئے ‘ پولیس کی موبائل بھی وہاں آئی گئی ۔ حلیم اور اس کے ساتھیوں نے پولیس کو دیکھ کر ان پر فائرنگ شروع کر دی ۔ اس فائرنگ سے حلیم کا ایک ساتھی اور ایک پولیس کانسٹبل بھی مارا گیا ـ آخر کار پولیس نے حلیم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ۔ جب پولیس نے حلیم سے تفتیش کی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے ۔ ضدی ہونے کی وجہ سے بگڑ گیا اور آہستہ آہستہ عادی مجرم بن گیا ۔ حلیم کا مقدمہ عدالت میں چلا تو عدالت نے اس کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ اویس نے جب یہ سارا واقعہ سنا تو وہ حلیم سے ملنے جیل گیا اور اس نے کہا دیکھو میں تمہیں کتنا سمجھاتا تھا لیکن تم نے میری بات نہیں سنی اور آج اس کا انجام دیکھ لیا ۔ اب حلیم اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا ۔