کسی پڑوس کے دل میں نہ جانے کب پہنچے
ابھی تو آدمی خود ذات کے حصار میں ہے
وزیر اعظم برطانیہ تھریسامے کو حکومت کرنے کا اختیار نہیں ہے؟ کیا انہوں نے خط اعتماد حاصل کرنے کے بعد بھی بریگزٹ مسئلہ پر برطانوی عوام کی ناپسندیدگی کو اپنے گلے لگالیا ہے۔ یہ سوالات آئندہ چند ہفتوں تک گشت کرتے رہیں گے کیونکہ مارچ آنے تک یوروپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے قانون پر عمل آوری ہوجائے گی۔ اس مسئلہ پر غور کرنے والی برطانوی سیاسی شخصیتوں کی رائے منقسم ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کورین کا کہنا ہے کہ خط اعتماد کا ووٹ جیتنے کے بعد بھی تھریسامے نظم و نسق’’ زومبی گورنمنٹ ‘‘ بن گئی ہے جو حکومت کرنے کی حقدار نہیں ہے اسے مستعفی ہوجانا چاہیئے۔ دارالعوام جس کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے، برطانوی پارلیمنٹ کا اہم مرکز ہے یہاں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں اس کو عوام کی حمایت حاصل ہونا کہا جاتا ہے۔ دارالامراء میں خاص موقف کے حامل سیاستداں ہوتے ہیں۔ دارالعوام میں ارکان پارلیمان نے وزیر اعظم تھریسامے کے بریگزٹ معاہدہ کو بھاری اکثریت سے مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں تھریسامے کو کامیابی مل گئی۔ یہ تحریک محض 19 ووٹوں سے ناکام ہوئی، 306 ارکان نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 325 نے اس کی مخالفت کی۔ اس کامیابی نے وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ مسئلہ پر مزید کام کرنے کا موقع دیا ہے۔ انہیں برطانیہ کی یوروپ سے علیحدگی کی حتمی تاریخ 27 مارچ سے قبل اپنے ملک کو درپیش مسائل سے بچانے کی ترکیب اور حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ یوروپی یونین سے واقعی برطانیہ کی علیحدگی کے بعد عالمی سطح پر کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اس پر غور کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے جب کسی گروپ سے کوئی طاقت علیحدہ ہوتی ہے تو اس کی شناخت بھی الگ ہوتی ہے ، اسے تجارتی اُمور پر بھی مختلف راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ تجارت اور معیشت ہی ہر ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ برطانیہ کے لئے جب یوروپی یونین سے علیحدگی کا لمحہ شروع ہوگا تو اس پر کئی شرائط بھی نافذ ہوں گی۔ تجارتی معاملوں میں اسے عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے تحت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ قانونی طور پر مقیم تارکین وطن پر بھی شرائط نافذ ہوں گی۔ حکومت کو ایک طویل جستجو کے ساتھ کافی محنت و مشقت کرنی ہوگی کیونکہ اسے یہاں سے ہر معاملہ میں از خود قدم اٹھانے ہوں گے۔ بریگزٹ سے علیحدگی کے بعد جو نقصانات ہوں گے ان کی پابجائی کے لئے منصوبہ سازی اور فائدے ہوں گے تو اس کے فوائد عوم تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی پڑے گی۔ تھریسامے کو خط اعتماد میں ووٹ تو مل گئے ہیں لیکن انہیں آنے والے چند دنوں میں برطانوی عوام کیلئے بریگزٹ کے بعد کے حالات سے نمٹنے کا منصوبہ بھی پیش کرنا ہوگا۔ بریگزٹ کیلئے جو مہلت دی گئی ہے اس کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کا ذہن ہنوزاس کے لئے تیار نہیں ہوا ہے اور برطانوی عوام کی اکثریت کو ابھی تک بریگزٹ کے اصل معنیٰ پر بھی غور کرناباقی ہے۔ سوال یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ آخر برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدہ ہونا ضروری ہے۔ برطانیہ کے عام لوگ اس مسئلہ پر اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں تو پھر یہ بریگزٹ کا معاملہ صرف حکمرانوں اور چند سیاستدانوں کی پسند بن گیا ہے۔ بظاہر یہ معاہدہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی سمجھی جارہی ہے اس لئے اب حکومت بریگزٹ کی حتمی تاریخ آنے سے پہلے ہی جو کچھ خامیاں اور غلطیاں رہ گئی ہیں اسے دور کرنے کی کوشش کرے گی ۔ مابعد بریگزٹ برطانیہ میں کس حد تک کہرام مچے گا یہ تو نے والے دنوں میں معلوم ہوگا ، حتمی تاریخ آنے سے قبل اگر کوئی طاقت ایسی نمودار ہوجائے جو برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے کے معاملہ کو ٹال دینے میں کامیاب ہوجائے تو باقی کے حالات مختلف ہوں گے اور اس دوران برطانیہ میں تازہ انتخابات کروائے جائیں گے تو جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ یوروپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو کس زاویہ سے دیکھے گی ‘ یہ اس کی پالیسی پر منحصر ہوگا۔ فی الحال برطانیہ کی سیاسی پارٹیوں کو آنے والے انتخابات کی تیاری کرنے سے قبل اپنے ذہن کو تیار کرنا ہوگا۔ بریگزٹ مسئلہ پر عوام کی حقیقی رائے کو معلوم کرتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنا ہوگا ، اگر بریگزٹ مسئلہ کو تازہ انتخابات تک ٹال دیا جاتا ہے تو پھر برطانوی عوام کو عام انتخابات میں اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے کا واضح موقف حاصل ہوگا۔