کیا ہوا وہ اتحاد و اتفاق
جانے کیوں بکھرا ہوا ہے آدمی
برطانیہ کی یوروپی یونین سے علحدگی
یوروپی یونین سے علحدہ ہونے کیلئے برطانوی عوام کی رائے کا احترام کرنے والے ملکوں نے مسرت کا اظہار کیا ہے اور عوامی رائے کے تناظر میں دنیا بھر کی معاشی صورتحال پر فکر رکھنے والوں نے تشویش ظاہر کی ہے۔ ایک گروپ سے علحدہ ہونے کا فیصلہ تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے مگر کسی بہتری اور انفرادی اہمیت کی خاطر علحدگی کا فیصلہ کیا جائے تو اس پر تنقیدوں اور تبصروں کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون نے یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کی مخالفت کی تھی لیکن ریفرنڈم کے ذریعہ ان کی مخالفت مسترد کردی گئی اور نتائج کے فوری بعد انہوں نے وزیراعظم برطانیہ کی حیثیت سے استعفیٰ دیدیا۔ یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کے فیصلہ اور عوامی رائے کے بعد عالمی معاشی و مالیاتی مارکٹ میں اتھل پتھل ہونا فطری امر ہے۔ شیرمارکٹ پر بھی اس کا موقتی اثر پڑ سکتا ہے۔ عالمی مارکٹ میں پاونڈ کی قدر 31 سال کی سب سے کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ایشیائی اسٹاک مارکٹوں میں بھی اس کا اثر پڑا ہے جو عارضی ہوگی۔ ریفرنڈم کیلئے برطانوی عوام کے اندر جوش و خروش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ برطانوی شہریوں نے کسی گروپ کے تابع رہنے سے زیادہ اپنے ملک کو آزاد معیشت میں ترقی کرنے کو ترجیح دی ہے۔ یوروپی یونین چھوڑنے کی مہم کو برطانوی عوام نے اس وقت تیز کردیا تھا جب انہیں آزادی کے معاملہ میں خود کے فیصلہ کو اہمیت دینا تھا۔ اس مہم کے ناقابل تسخیر سبقت لے جاتے ہی واضح ہوگیا تھا کہ برطانوی عوام اب کسی گروپ کے دم چھلہ رہنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے یوروپی یونین سے علحدہ ہونے کے حامیوں کی رائے ہے کہ فی الوقت برطانوی پاونڈ کی قدر میں کمی دیکھی جائے گی لیکن یوروپی یونین سے علحدہ ہونے کے بعد یورو کی دم گھوٹنے والی بیوریو کریسی سے آزاد ہونے سے برطانوی معیشت کو قوت ملے گی اور ملک کا اقتداراعلیٰ بحال ہوجائے گا۔ یوروپی یونین سے علحدگی کے حق میں 51.8 فیصد عوام نے ووٹ ڈالے جبکہ علحدگی کی مخالفت میں 48.2 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ پھر بھی برطانوی عوام کی قابل لحاظ آبادی یوروپی یونین کی رکنیت کی حامی ہے تو آنے والے دنوں میں مختلف سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے نتائج سامنے آنے کے فوری بعد استعفیٰ دے کر نئے سیاسی راہوں کو کشادہ کردیا ہے۔ برطانیہ نے 1973ء میں یوروپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یوروپی یونین کو اس لئے اہمیت دی جارہی تھی کہ اس گروپ نے اپنے بل پر ایک علحدہ کرنسی بورڈ قائم کی تھی جس کی قدر ڈالر کے مقابل زیادہ تھی مگر اب ڈالر کی قدر اور عالمی مارکٹ میں معاشی توازن کو لاحق خطرات پر تشویش ظاہر ہورہی ہے۔ یوروپی یونین کے قیام کے بعد دنیا کے بعض حصوں میں جہاں اکثر تنازعات رہتے تھے، امن قائم ہوا تھا مگر خود برطانیہ کے اندر بعض حلقوں میں یہ شکایات زور پکڑ رہی تھیں کہ برطانیہ کو آزادانہ تجارت کا موقع نہیں ملے گا۔ یوروپی یونین کے بعض طاقتور ممالک اس گروپ کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کررہے تھے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی اپنی خودمختاری کو ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اب جبکہ برطانوی عوام نے اپنے ملک کی خودمختاری کو بحال کرنے کیلئے ووٹ دیا ہے تو اس پر ساری دنیا کو کہرام مچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ عالمی مارکٹ کو دھکہ زور لگا ہے مگر اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھانے والوں نے اب کرنسی سے زیادہ سونے پر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دینی شروع کی ہے۔ اس سے یہ قیمتی دھات دن بہ دن مہنگی ہوگی۔ سونے کی قیمت میں اضافہ کے بعد شیر مارکٹ میں شیرز کی گراوٹ بھی عارضی رہے گی۔ برطانوی عوام کے فیصلہ سے ہندوستانی معیشت اور کرنسی کو خاص دھکا نہیں پہنچے گا۔ جیسا کہ وزیرفینانس ارون جیٹلی نے کہا کہ یوروپی یونین کو چھوڑ دینے برطانیہ کے فیصلہ کے بعد رونما ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہندوستان تیار ہے۔ ویسے بھی ہندوستانی معیشت کو مستحکم قرار دیتے ہوئے وزیرفینانس نے توقع ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں ہندوستانی معیشت کے مزید استحکام کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ یہ تبدیلی بھی ایک ایسے وقت میں ہوگی جب دنیا بھر کے سرمایہ کار محفوظ سرمایہ کاری کی جگہ تلاش میں ہیں اور یہ محفوظ جگہ اب ہندوستان بھی ہوسکتی ہے۔ ہندوستان دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ برطانیہ میں ممتاز این آر آئی صنعتکار جی پی ہندوجا نے بھی یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کو ہند ۔ برطانیہ تعلقات کیلئے ایک ’’مثبت‘‘ تبدیلی قرار دیا۔ بلاشبہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے بڑھتے مواقعوں کے درمیان اگر یوروپی یونین میں یہ پھوٹ ہوتی ہے تو آنے والے برسوں میں عالمی معاشی منظرنامہ ہندوستان کی جانب رخ کرے گا۔ اس وقت امریکہ کو اپنے معاشی مستقبل پر فکر لاحق ہوئی ہے تو یہ فطری بات ہے۔ ہندوستانی کرنسی اس وقت اپنی قدر کو مضبوط بنائے ہوئے ہے تو ہندوستان کو اپنی مارکٹ کو مزید کشادہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ برطانیہ کو آگے چل کر جن مسائل کا سامنا ہوگا اسے مقامی طور پر عوامی فیصلے کا خمیازہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ حکمراں طبقہ کو اپنی آزادانہ پالیسیوں کے مرتب کرنے کے ساتھ یوروپی یونین کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی بات چیت میں انتظام کا جذبہ نہیں ہونا چاہئے یہی ترقی کی علامت ہوگی۔
تلنگانہ میں صنعتی پالیسی اور سرمایہ کاری
تلنگانہ کی صنعتی پالیسی کی تعریف کرنے والے گوشوں نے اس مسرت کا بھی اظہار کیا ہیکہ سرمایہ کاری کے فیصد میں اضافہ ہوگا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے آنے والے دنوں میں تلنگانہ کو سنہرے تلنگانہ میں تبدیلی کرنے کا اعلان کیا تھا اس نہج پر کام ہورہا ہے تو صنعتی پالیسی کو فروغ دے کر سرمایہ کاری کے بہاؤ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے حکومت کے بعض شرائط اور ضوابط پر صنعتی اور تجارتی اداروں نے اعتراض کئے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شرائط کو آسان بنانے اور تجارتی عمل کو تیز کرنے کیلئے سرکاری سطح پر کوشش ہونی چاہئے۔ اقل ترین حکومت اور اعظم ترین حکمرانی کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو بلاشبہ تلنگانہ کو سنہرے تلنگانہ میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔ صنعتوں کے تمام زمروں کے لئے یکساں تجارتی عمل طئے کرتے ہوئے آسانیاں ہموار کی جانی چاہئے۔ اسمال اسکیل انڈسٹری اس ریاست کا اہم صنعتی مرکز ہے لیکن اب بڑے صنعتی گھرانوں نے بھی تلنگانہ میں اپنے قدم مضبوط کرکے ترقی کی سمت پیشرفت شروع کی ہے تو یہ ادارے ریاست میں زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرنے کے اہم مراکز بن سکتے ہیں۔ ریاست میں سال 2010-15ء کے درمیان سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر شعبہ ترقی سے سالانہ پیداواری شرح 10 فیصد تھی اور تجارت 32 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 53 لاکھ کروڑ ہوگئی۔ اب اس میں مزید اضافہ کیلئے ٹی آر ایس حکومت کی صنعتی پالیسی زبردست کارکرد ثابت ہوتی ہے تو روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔ ریاست میں ٹرانسپورٹ سرویس کو بھی زبردست ترقی حاصل ہورہی ہے اس لئے اس شعبہ میں بھی سرمایہ کاری کے پراجکٹس پرکشش بنتے جارہے ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے ٹرانسپورٹیشن، مواصلات پانی اور توانائی کے نٹ ورکس کو مؤثر بنانے کے اقدامات کئے ہیں توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست تلنگانہ اندرون ملک صنعتوں کے علاوہ عالمی سرمایہ کاروں کیلئے ایک پرکشش مقام بن جائے مگر حکومت کو سرمایہ کاری کے شرائط و ضوابط مرتب کرتے وقت ریاست اور عوام کے مفادات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔