نام محمد پر انتظامیہ کے کم جوابات، انگریزی نام ایڈم کو ترجیح، جائزہ رپورٹ کا انکشاف
لندن ۔ 6 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ایک تازہ ترین رپورٹ کے دعوے کے مطابق برطانیہ میں شخصی تفصیلات کے خاکہ (سی وی ؍ بائیو ڈاٹا) میں کوئی مسلم نام انتظامی عہدوں پر ملازمت کے انٹرویو میں درخواست گذار کی طلبی کے امکانات متاثر کرسکتا ہے۔ برسٹل یونیورسٹی میں شہریت و نسلی علوم کے ایک تحقیقی مرکز کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہیکہ مسلم مردوں کو اپنے سفید فام عیسائی ہم منصبوں کے مقابلہ حصول ملازمت کے 76 فیصد کم مواقع ہیں۔ بی بی سی نے اس یونیورسٹی کے معاشرتی سائنسدانوں کے ساتھ ایک تحقیقاتی ٹیم تیار کی تھی، جس نے انتظامی سطح کے عہدوں پر تقررات میں ہونے والے تعصب اور امتیازی سلوک کے واقعات کا پتہ چلانے کی کوشش کی ہے۔ اس ٹیم نے سیلس کی ملازمتوں کیلئے ایڈم اور محمد کے نام سے 100 درخواستیں داخل کی تھی۔ انگریزی نام ایڈم کے ساتھ دی جانے والی درخواستوں (سی وی) کو انتظامیہ کی طرف سے 12 مثبت جواب اور چار انکوائریز موصول ہوئے لیکن نام ’’محمد‘‘ سے دی جانے والی درخواست پر صرف چار مثبت جواب اور دو انکوائریز موصول ہوئے۔ اس مطالعاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر طارق محمود نے بی بی سی سے کہا کہ ’’ہم نے انتہائی واضح طور پر یہ نشاندہی کی ہیکہ مسلم نام سے دی جانے والی درخواست کو تین کے منجملہ صرف ایک انٹرویو کیلئے طلب کیا جاسکتا ہے‘‘۔ طارق محمود نے جو اس یونیورسٹی میں شعبہ شہریت و نسلی علوم کے ڈائرکٹر بھی ہیں، کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ مسلم ناموں پر آجرین ؍ انتظامیہ کی طرف سے جواب کی شرح 50 فیصد سے بھی کم ہے چنانچہ یہ میرے اندازوں سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ بالخصوص لندن جیسے شہر میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہ ایک متنوع اور تکثیری معاشرہ پر مبنی شہر ہے، جہاں دنیا کے مختلف گوشوں سے لوگ آتے ہیں اور روزگار تلاش کرتے ہیں۔ نیز یہ شہر فن مہارت اور صلاحیتوں کا سخت ضرورتمند بھی ہے، جس کے باوجود ایسا ہورہا ہے۔ جی ہاں یہ اس سے بھی بدتر ہے جیسا میں نے سوچا تھا‘‘۔