لندن ، 25 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ میں ملکی قوانین میں ترامیم کی ریگولیٹری باڈی ’لا سوسائٹی‘ نے برطانوی وکلاء کو جاری کردہ رہنمایانہ خطوط میں انھیں اسلامی قوانین کے تحت وصیت تیار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے قبل صرف برطانوی قانون کے تحت ہی وصیت تیار کی جا سکتی تھی لیکن برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمان اب شرعی قوانین کے تحت اپنی وصیت تیار کرا سکیں گے۔ لا سوسائٹی کی گائیڈ لائنز کو برطانوی مسلم تنظیموں نے تو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن خواتین کے مساوی حقوق کیلئے کام کرنے والی بیشتر برطانوی تنظیموں نے اسلامی قوانین کے تحت وصیت تیار کرنے کی گائیڈ لائنز کو برطانیہ میں پہلے سے موجود خواتین کو یکساں اور مساوی حقوق دینے کے قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔ نیشنل سکیولر سوسائٹی کے ڈائریکٹر کیتھ پورٹیس کے مطابق لا سوسائٹی کا حالیہ اقدام برطانوی معاشرے کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔
لیکن لا سوسائٹی نے اپنی گائیڈلائنز کو برطانوی معاشرے میں اچھی روایات کوبڑھاوا دینے سمیت وکلاء کی مدد کیلئے ایسا اقدام قرار دیا ہے جس کے تحت برطانوی وکلاء مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے موکلوں کو بہتر خدمات فراہم کر سکیں گے۔ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کا گائیڈ لائنز پرسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قانون کے تحت خواتین کو مردوں کی بہ نسبت جائیداد میں کم حصہ ملے گا جو ان کے بقول برطانوی وراثتی قوانین کے خلاف ہے۔ برٹش پاکستانی لائرز اسوسی ایشن کے سربراہ بیرسٹر امجد ملک نے کہا کہ لا سوسائٹی کے حالیہ رہنمایانہ خطوط سے برطانیہ میں جاری کئی غیر قانونی روایتوں کو قانونی حیثیت مل جائے گی جو ایک خوش آئند بات ہے۔ ان کے الفاظ میں برطانیہ میں مقیم مسلمان وراثت، خاندانی معاملات اور طلاق وغیرہ جیسے مسائل اس سے قبل بھی اسلامی قوانین کے تحت حل کیا کرتے تھے لیکن ان کے فیصلوں کو قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی لیکن اب اگر وہ قانونی طور پر اپنے مسائل شرعی قوانین کے تحت حل کر سکتے ہیں تو اسے ایک مثبت اقدام کے طور پر لینا چاہئے۔