لندن۔ یکم اپریل (سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ میں تقریباً 700 طلباء ایسے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم انہیں نیوکلیئر، بائیو لوجیکل اور کیمیکل طریقہ حرب جیسے مضامین میں داخلہ دینے سے گریز کیا جارہا ہے کیونکہ یونیورسٹی حکام کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ نوجوان نسل کے طلباء کورس کی تکمیل کے بعد کہیں عام تباہی کے ہتھیار بنانا شروع نہ کردیں؟ 739 طلباء ایسے ہیں جنہوں نے سائنس اور انجینئرنگ کورسیس میں داخلہ کی درخواستیں دی تھیں جنہیں مسترد کردیا گیا۔ اخبار ’’ٹیلیگراف‘‘ میں شائع ہوئی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ طلباء اپنے کورس کی تکمیل کے بعد یا کورس کے دوران ہی عسکریت پسندوں کی زد میں یا ان کے رابطہ میں آسکتے ہیں اور اس طرح طلباء سے عسکریت پسند ہتھیار سازی کی اہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ برطانیہ کی جن یونیورسٹیوں میں مندرجہ بالا کورسیس کے لئے طلباء نے درخواستیں دے رکھی ہیں، ان کی اکثریت اسلامی ممالک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ ہندوستان سے صرف چند طلباء نے ہی درخواست دی ہے۔ دوسری طرف مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جنہوں نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ان کی تعداد 3400 بتائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعض بیرونی اور بدنام زمانہ انتہا پسند بھی طالب علم بن کر ان یونیورسٹیوں میں داخلے کے خواہاں ہیں تاکہ عام تباہی کے ہتھیار بنانے کیلئے درکار معاہدات حاصل کی جاسکے۔ اس کی ایک مثال ایسی ہے جس کا نام رہاب طہ بتایا گیا ہے۔ اس خاتون کو ’’ڈاکٹر جرم‘‘ کہا جاتا تھا جس نے صدام حسین نے بائیولوجیکل ہتھیار پروگرام میں کام کیا تھا۔ طہ نے پلانٹ ٹوکیسن کے زمرہ میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری 1980-84ء کے درمیان ناروچ کی ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی اسکول آف بائیولوجیکل سے حاصل کی تھی۔