شیرازہ زندگی کا کچھ ایسا بکھر گیا
جو شخص جس جگہ تھا وہیں پر ٹھہر گیا
برطانوی پارلیمنٹ نشانہ!
برطانیہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بن کر اپنی فوجی کارروائیوں کو وسعت دی ہے۔ شام اور عراق میں دولت اسلامیہ داعش کے ٹھکانوں پر بمباری میں حصہ لینے والے برطانوی سپاہیوں نے خطرات کو کم نہیں کیا ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انجام جوابی حملوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے تو یہ حملہ بھی اس جنگ کا کام سمجھا جاسکتا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ پر حملہ کے واقعہ کے بعد کئی سوال اٹھ کھڑے ہیں کہ آیا عالمی طاقتوں کو دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں کامیابی کیوں نہیں مل رہی ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش نے سر اٹھایا ہے تو اس کی اصل جڑ کہاں پیوست ہے۔؟ اگر داعش یا القاعدہ حملوں کی ترغیب دینے میں کامیاب ہورہے ہیں تو یہ اشارہ ملتا ہیکہ دہشت گردی کا اصل خطرہ برقرار ہے بلکہ پہلے سے زیادہ قوی ہوکر ابھر رہا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ پر حملہ کا منصوبہ رکھنے والے واحد حملہ آور کے تعلق سے برطانوی تحقیقات ایجنسیوں نے جو بھی رپورٹ تیار کی ہے، اس سے یہ تو واضح ہوسکا کہ داعش کہیں سے بھی لوگوں کو اکسا کر گمراہ کرکے اپنا کام نکالنے کی مہم میں کامیاب ہورہی ہے۔ اس واحد حملہ آور کے بارے میں تحقیقات کرنے والوں کا یہ کام مشکل ترین ہے کیونکہ حکومت اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا ماننا یہی ہیکہ یہ تنہا حملہ آور نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بڑی طاقت ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ پر حملہ کی کوشش میں پانچ برطانوی شہری ہلاک اور 20 سے زائد راہرو زخمی ہوئے تھے۔ داعش نے اگرچیکہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہیکہ ہر ایک واحد شخص کی کارروائی کو اپنے سر لے کر وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل حکومتوں کو للکارا جارہا ہو کہ داعش پوری شدت سے ان کے سامنے حملہ آور بن کر ٹھہرا ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر جس طرح پھیلائی جارہی ہے یہ درپیش خطرات کا حل نہیں ہے اگر چند حکمراں اپنی شکست کا انتقام نفرت پر مبنی جرائم کو ہوا دے کر اسلام یا مسلمانوں کے خلاف ایک منفی سوچ کو فروغ دیں گے تو اس کے نتائج اچھے نہیں خطرناک ہی نکلیں گے جیسا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے حملہ آور کے تعلق سے کہا گیا ہیکہ وہ ایک معمولی جرائم میں ملوث شخص تھا۔ برطانیہ کا مقام برمنگھم برطانوی نژاد دہشت گردوں کا مرکز بنتا جارہا ہے تو یہ برطانیہ کیلئے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی بیرون برطانیہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمرکاب ملک ہے۔ اندرون برطانیہ پرورش پانے والے دہشت گردوں سے بے خبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ برطانیہ یا کوئی اور ملک جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کرتا ہے تو اس کی کارروائی کا معیار دوہرے پن کا شکار ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی سوچ اور ان کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی خرابیاں ہی دہشت گردی سے نمٹنے میں نام نہاد جنگ میں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ فرانس نے بھی اس لعنت سے نمٹنے کیلئے ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو وہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح برطانیہ بھی اس میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ اس ناکامی کی وجہ اس حقیقت میں پوشیدہ ہیکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار غلط قوم کو بنایا جارہا ہے۔ پتھر مارنے کیلئے اگر غلط درخت کا انتخاب کیا جائے تو اس درخت سے پھل نہیں صرف پتے ہی گریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ برطانوی عوام نے اب تک دہشت گرد حملوں کا شکار ہونے کے باوجود خود کو صبروتحمل پر قائم رکھا۔ 2005ء میں 7 جولائی کے حملے کے دوسرے دن ہی عوام کی عام زندگی بحال دیکھی گئی تھی۔ گذشتہ روز ویسٹ سنٹر بریج واقعہ کے بعد بھی عوام نے خوداعتمادی کا بہترین مظاہرہ کیا اور نفرت پر مبنی جرائم سے گریز کیا ہے۔ اس کے برعکس دیگر ملکوں میں خاص کر امریکہ میں ایک حکمراں کی اسلام دشمنی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بھی حملے کے دوسرے دن معمول کے مطابق کام کیا ہے۔ برطانوی پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیوں کی چوکسی اور حاضر دماغی کی وجہ سے ہی گذشتہ دو سال کے دوران حملوں کی کوششوں کو 10 مرتبہ ناکام بنایا جاچکا ہے مگر تازہ حملہ میں صرف واحد شخص کی کارروائی نے برطانوی نظم و نسق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ اس کے ہی شہریوں میں سے ایک شہری نے دہشت گردی کا ہتھیار اٹھا لیا ہے تو اس کو مزید چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ برطانوی شہریوں کو یہ سبق بھی حاصل کرنے کا موقع ملا ہیکہ انہیں صرف ایک دن ایسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ہے تو شام اور عراق پر کیا گذر رہی ہوگی جو ہر لمحہ اس سے زیادہ خطرناک حالات کا شکار ہورہے ہیں۔
حسنی مبارک کی رہائی
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے بیدخل کردینے کے بعد 6 سال تک جیل میں محروس رکھنے والوں نے بالآخر رہا کردیا۔ ان کی گرفتاری اور جیل کی سزاء کا عمل اقتدار کے دور کی بدترین مثال سمجھی جائے گی۔ عرب اسپرنگ نے مشرق وسطیٰ کی بڑی سیاسی و عوامی طاقتوں کو بہا لیا گیا تھا مگر حسنی مبارک پہلے ایسے حکمراں ہیں جنہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2011ء میں ان کی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی اموات کیلئے 88 سالہ حسنی مبارک ک ذمہ دار ٹھہرا کر مقید کردیا گیا تھا آج ان ہی الزامات سے بری کرتے ہوئے مصر کی عدالت عالیہ نے ان کی بے گناہی پر اپنی مہرثبت کردی۔ ماضی میں اقتدار کے حصول کی کوشش مختلف ہوتی تھیں۔ انور سادات کے قتل کے بعد مصر کا اقتدار حاصل کرنے والے حسنی مبارک مصر پر 30 سال تک حکمرانی کرنے کا شاندار ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن انہوں نے اپنے مخالفین کو سر اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دی۔ اسی لئے ان کے مخالفین انہیں ڈکٹیٹر اور فرعون سے بھی تعبیر کرتے رہے تھے۔ ان مخالف حسنی مبارک گروپس کو اس وقت طاقت حاصل ہوئی جب عرب اسپرنگ نے تقریباً مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس عرب بہار نے حسنی مبارک کی تمام امیدوں کو چکناچور کردیا اور وہ یکلخت ناکام امیدوں کی علامت بن گئے ۔ 1952 میں عرب جمہوریہ مصر کے قیام کے بعد سے حسنی مبارک چوتھے صدر مصر تھے جس وقت فوج نے بادشاہت کے دور کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مصر، عرب دنیا کے دیگر ملکوں میں جہاں جمہوری طرف سے اقتدار کے حصول کیلئے کوشش کی جاتی رہی ہے اس کے ساتھ معزولی کے واقعات بھی اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ اب حسنی مبارک کو معزول کرکے جیل بھیجنے والوں کیلئے ان کی آزادی ایک شدید صدمہ ہوگی۔ مصر کی عصری تاریخ میں حکمرانوں کا عدم استحکام ایک افسوسناک حقیقت بن گئی ہے۔ حسنی مبارک کی معزولی کے بعد سے مصر میں اقتدار اور حالات کبھی مستحکم نہیں ہوسکے۔ البتہ موجودہ سربراہ عبدالفتح السیسی کو مبارک طرز کی قیادت کرنے کی حامل شخصیت سمجھا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ مصر کی تاریخ میں اب کس انقلاب کو رقم کیا جائے گا۔