مستقل طور پر قاضی کی خدمات سے برخواستگی ، سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل
حیدرآباد ۔ 28۔ ستمبر (سیاست نیوز) حیدرآباد میں غریب مسلم لڑکیوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے قاضیوں کے خلاف محکمہ اقلیتی بہبود نے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ جن قاضیوں کو کنٹراکٹ میریج اور کمسن لڑکیوں کی شادی جیسے سنگین جرائم میں ملوث پایا گیا انہیں قضاۃ کی خدمات سے مستقل طور پر برطرف کیا جائے گا ۔ سٹی پولیس نے حالیہ واقعات کے بعد 5 بدنام زمانہ قاضیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی سسپکٹ شیٹ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان 5 قاضیوں میں ایک قاضی عدالت کے حکم التواء کے سہارے ان سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے کہا کہ جن قاضیوں کی سسپکٹ شیٹ کھولی جائے گی ، انہیں مستقل طور پر خدمات سے برطرف کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں سرکاری تعطیلات کے بعد کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کے تقررات ، ان کی میعاد ، علاقہ کا تعین اور غیر قانونی سرگرمیوں سے روکنے کیلئے کارروائی کے سلسلہ میں قواعد و ضوابط تیار کئے ہیں۔ ان کی منظوری کیلئے حکومت سے رجوع کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رولس کی منظوری کے بعد کوئی بھی قاضی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ عمر جلیل نے کہا کہ خود کو شافعی مسلک کا قاضی قرار دینے والے شخص کے تقرر کے احکامات انہوں نے اجرائی کے چند گھنٹوں میں واپس لے لئے تھے لیکن اس نے ہائی کورٹ سے حکم التواء حاصل کرلیا ۔ سکریٹری نے بتایا کہ وہ حکم التواء کی برخواستگی کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گے اور مذکورہ قاضی کی شرمناک سرگرمیوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی افراد اور خاص طور پر عرب ممالک سے آنے والے افراد کی شادیوں کے سلسلہ میں شرائط کو قطعیت دی جارہی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل کو تفصیلات روانہ کی گئی اور ان کی منظوری کے بعد حکومت احکامات جاری کرے گی ۔ عمر جلیل نے کہا کہ دیگر ممالک سے آنے والے افراد کی شادیوں میں رکاوٹ کو روکنے کیلئے صرف عرب ممالک کے شہریوں پر شرائط کے اطلاق کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان شرائط میں کسی بھی بیرونی شخص کو اپنے ملک سے این او سی ساتھ لانا ہوگا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا فرق 10 سال سے زائد نہ ہو۔ عرب ممالک کے شہری اپنا این او سی کمشنر پولیس یا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے دفتر میں داخل کرتے ہوئے شادی کی درخواست دیں اور یہ درخواست شادی کی تاریخ سے ایک ماہ قبل اور دلہن کی مکمل تفصیلات کے ساتھ داخل کی جائے ۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس یا کمشنر پولیس مکمل جانچ کے بعد شادی کی اجازت دیں گے ۔ شادی چائلڈ ویلفیر یا میناریٹی ویلفیر کے عہدیداروں کی موجودگی میں انجام دی جائے۔ شادی کے موقع پر عرب شہری کیلئے لازم ہوگا کہ وہ دلہن کے نام پر 10 لاکھ روپئے ڈپازٹ کرے۔ عمر جلیل نے کہا کہ قاضیوں کیلئے یہ لازمی ہوگا کہ وہ تمام شرائط کی تکمیل کرنے والے عرب شہریوں کا نکاح انجام دیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود سے جب یہ تجاویز اسمبلی کی اقلیتی بہبود کمیٹی میں پیش کی گئی تو ارکان نے اس کی تائید کی ۔ تاہم تجویز پیش کی کہ صرف عرب ممالک کے شہریوں پر ان شرائط کا اطلاق ہو۔ اگر صرف بیرونی شہری لکھا جائے تو امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے آنے والے افراد کو دشواری ہوسکتی ہے جو آپسی رشتہ داری میں نکاح کرنا چاہتے ہوں۔ شرائط سے متعلق فائل کو محکمہ قانون کی منظوری حاصل ہوچکی ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد ایڈوکیٹ جنرل بھی اسے کلیئرنس دے دیں گے ۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے کمسن لڑ کیوں کی شادی اور کنٹراکٹ میریجس کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلہ میں سخت قوانین وضع کرنے حکومت سے سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ قاضی اور دلالوں کو غیر ضمانتی دفعات کے تحت بک کرتے ہوئے جیل بھیج دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بدنام زمانہ قاضی سماج کیلئے دھبہ ہیں ، لہذا انہیں پی ڈی ایکٹ کے تحت جیل میں بند کیا جائے ۔ حیدرآباد میں کنٹراکٹ میریجس اور ضعیف العمر بیرونی شہریوں کے ساتھ کمسن لڑ کیوں کی شادی کا ریاکٹ کوئی نئی بات نہیں۔ 90 کے دہے سے اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اور غریب خاندانوں کی غربت کا استحصال کرتے ہوئے قاضیوں نے اس طرح کی سرگرمیوں کو عروج عطا کیا ہے ۔ اپنے حقیر مفادات کے لئے ملت کی کمسن لڑکیوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے والے ان قاضیوں اور دلالوں کے خلاف جس قدر سخت کارروائی کی جائے کم ہے۔