بحیرۂ روم کی ڈائٹ صحت کیلئے بہتر

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپا کم کرنے کے لیے بحیرۂ روم کی ڈائٹ سب سے بہتر طریقہ ہے۔طبی جریدے ’پوسٹ گریجویٹ میڈیکل جرنل‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق طبی ماہرین کے خیال میں ایسی خوراک سے دل کا دورہ پڑنے اور فالج کے خطرات فوری طور پر کم ہو جاتے ہیں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کی ’کم چکنائی والی خوراک‘ کے مقابلے میں بحیرۂ روم کی خوراک بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔
برطانوی طبی نظام این ایچ ایس کے مطابق وزن کو قابو میں رکھنے کے لئے اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کتنی خوراک یا کیلوریز لی جائیں۔گذشتہ ہفتے این ایچ ایس کے افسران نے اس بات پر زور دیا تھا کہ لوگوں میں موٹاپے اور اس سے پیدا ہونے والے طبی مسائل کو کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔جریدے میں جہاں ایک جانب خوراک پر توجہ دینے کی بات کی گئی ہے، وہیں زیادہ سخت ڈائٹنگ سے ہونے والے نقصانات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔یہ خوراک وزن کو قابو میں رکھنے اور اچھی صحت دونوں کے لئے بہترین ہے جس کے استعمال سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ وزن کم کرنے سے متعلق ادویات اور خوراک بنانے والی کمپنیاں اچھی خوراک کے بجائے صرف کم کیلوریز پر توجہ دے رہی ہیں۔
ماہرین نے بحیرۂ روم کی خوراک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وزن کو قابو میں رکھنے اور اچھی صحت دونوں کے لئے بہترین ہے جس میں پھل، سبزیاں، زیتون کا تیل اور خشک میوے شامل ہیں جن کے استعمال سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
مضمون کے اہم مصنف اور دل کے امراض کے ماہر ڈاکٹر اسیم ملہوترہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی خوراک کے سائنسی نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو غذائیت سے بھر پور خوراک کھانے کی ہدایت کی جائے۔انھوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کی صحت پر فوری اثر پڑے گا۔
مضمون میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے کے بعد بحیرۂ روم کی خوراک سے صحت یاب ہونے کے امکانات تین گنا بڑھ جاتے ہیں۔مضمون نگاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانیہ میں این ایچ ایس کے اسپتالوں میں اس طرح کی صحت مند خوراک مہیا کر کے اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو اس خوراک کی اہمیت سمجھا کر مثال قائم کی جا سکتی ہے۔