بانی جامعہ نظامیہ محبت رسولﷺ کے عملی پیکر

مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

اللہ کے پیا رے سول سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے : لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ تم میں سے کوئی شخص مؤمن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اپنی اولاد، والدین و دیگر تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ دوسری حدیث پاک میں ارشاد ہے : لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لماجئت بہ ۔ کوئی شخص تم میں سے اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔

حضرت شیخ الاسلام انواراللہ فاروقی قدس سرہ العزیز محبت رسول ﷺ کے ایک عملی پیکر رہے ہیں وہ صرف گفتار کے غازی نہیں تھے بلکہ اسلامی کردار کی ایک جیتی جاگتی عملی تصویر تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کا پاک سینہ نہ صرف حُبِّ نبوی ﷺ سے معمور تھا بلکہ عملی زندگی اِسی حُبِّ رسول ﷺ کی آئینہ دار تھی، اسی محبت نے انھیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دیار ہند سے کشاں کشاں دیار حبیب کی طرف چلنے پر آمادہ کرلیا۔
دیارِ حبیب ، شہر مدینہ! وہ جو شہر محبت، شہر تمنا، آنکھوں کی ٹھنڈک، مرکز آرزو، شہر پاک در افشاں ، دیار سید ذیشاں، عکس گلشن ریحاں، قرار جاں، سکون قلب و جناں، درد مند دلوں کے درد کا درماں، غمزدوں کی تسکین کا ساماں، بے سہاروں کا سہارا، محتاجوں اور مسکینوں کی پناہ گاہ ، رحمت اللعالمین ﷺ کی آرامگاہ یقینا جو رحمتوں کا مسکن، علوم و معرفت کا مخزن ہے، اس لئے اس کی فضاؤں میں کچھ اوقات کا گزار لینا اور کچھ لمحات کیلئے وہاں سانس لے لینا یقینا راحت و رحمت کا موجب ہے، دل و نگاہ کو جس سے بڑی ٹھنڈک میسر آجاتی ہے

یہی کچھ ایمانی و روحانی جذبات و احساسات کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام نوراللہ مرقدہ حضور انور سرور کونین، روح کائنات، قرار جاں، جاں ایماں، ﷺ کے قدوم پاک میں رہ کر اپنی زندگی کے لمحات بتانے اور آپ ﷺ کے مبارک قدوم پاک میں جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے اسی بابرکت سرزمین میں آسودۂ خاک ہونے کی تمنا لئے ہوئے پہنچے تھے۔ لیکن چونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو آپ سے دین اسلام کی بڑی خدمت لینا تھا، دیار ہند کو دیار حبیب ﷺ کی نورانی ضیاؤں سے ضیاء بار کرنا تھا، اس لئے اشارۂ غیبی و ہدایت منامی نے آپ کو دکن کی طرف مراجعت اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ حضرت پیر طریقت، رہبر کامل، مرشد حق، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی رہبری و رہنمائی میں دیار مدینہ کو نمناک آنکھوں کے ساتھ رخصت کرکے ہند کی طرف رخت سفر باندھا۔ مدینہ منورہ کی پُرنور فضاؤں نے علم و عرفان کے جن انوار ضیاء بار و فیوضات گہربار سے سینہ انوار اللہ (رحمہ اللہ) کو منور کردیا تھا اور گنبد خضریٰ علی صاحبہا افضل التحیۃ والثناء پر نازل ہونے والی بارش رحمت کے جن قطرات کو سموکر انھوں نے اپنے سینہ صافی کو ایمان و معرفت کے جواہر پاروں کا صدف بنالیا تھا۔ قدرت کو یہی منظور ہوا کہ یہ بے کراں، انوار علم و عرفاں، حقائق احادیث و قرآن ان کی ذات تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کی پُرنور ضیائیں دوسروں کے سینوں کو منور کریں اور ان انوار کی راحت و رحمت اور ٹھنڈک دوسرے دلوں کی ٹھنڈک کا سامان بنے۔

اسی مقصد عظیم کی تکمیل کیلئے حق سبحانہ نے آپ کیلئے دکن میں مواقع فراہم فرمائے۔ مدینہ منورہ سے احادیث کا مبارک خزانہ کنزالعمال جو اپنے ساتھ لائے تھے، دائرۃ المعارف النظامیہ ثم العثمانیہ کا قیام عمل میں لاکر اس کی اشاعت کا سامان فرمایا، جو علم و حکمت کا خزینہ بحر معرفت کا گنجینہ ہے۔ دوسری طرف دانشگاہ علم و عرفاں جامعہ نظامیہ کی تاسیس رکھی، جس سے علم و عمل کے عملی پیکر پیدا ہوتے رہے اور علمی و عملی طور پر دین اسلام کی تعلیمات حضور پُرنور سیدالمرسلین ﷺ کی پاکیزہ سنتوں اور آپ ﷺ کے مبارک اُسوۂ حسنہ کو عام کرنے اور انسانی سینوں کو ربِّ کعبہ کی بڑائی، کبریائی کا امین و انوار مدینہ کی جلوہ گاہ بنانے میں مصروف عمل رہے، اور اپنے خدا ترس اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج بھی اس کے فرزندانِ علم اقطاع عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور اسی مقصد عظیم کی تکمیل میں جٹے ہوئے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت اور حضرت نبی کریم ﷺ کی محبت و اتباع ہی دراصل اس دنیا میں وجہ سکون و اطمینان ہے، جو اس حقیقت سے آشنا نہیں ان کو اس دنیا کی مادی راحتیں و سامان عیش و آرام کوئی سکون نہیں دے سکتے، اس پاک محبت سے جن کے سینے خالی ہیں ان کی زندگیاں روحانی کیف و سرور سے محروم ہیں، دنیا کی دل فریبیوں میں کھوئے رہنے والوں کی زندگیاں مادی ترقیات کی بنا سامان راحت و آرام میسر آجانے کے باوجود بے لطف اور مکدر ہیں، اس کی وجہ صرف اور صرف اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے دوری ہے، یہ دوری جتنی زیادہ ہوگی دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمتوں سے محرومی ہوگی، اُخروی رحمتوں سے محرومی کا تو کوئی تصور ہی ممکن نہیں۔

ساری کائنات اپنے وجود میں آپ ﷺ کے وجود کی رہین منت ہے، انسانیت کا افتخار آپ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کرنے اور آپ ﷺ کی مبارک حیات طیبہ سے روشنی حاصل کرنے ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ کے نقوش پا کو نشان راہ بنانے سے ہی انسان کا سرتاج شرافت و افتخار کے قابل بن سکتا ہے، ذات رسالت مآب ﷺ سے اگر انسانوں کا رشتہ توڑ دیا جائے تو پھر ان کے حق میں یہ زندگی موت کے مترادف ہوجاتی ہے، سرمایہ حیات کے سارے سرچشمے، طاقت و قوت کے سارے ذرائع، دولت و ثروت کے سارے ذخیرہ، انسانوں کو روحانی زندگی کا کیف و سرور نہیں دے سکتے، روحانی زندگی کے تقاضے جب پورے نہ ہوں تو پھر مادی تقاضوں کی تکمیل سے مقصد تخلیق کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور انسان کی ایمانی حیثیت متاثر ہوجاتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام کی پاکیزہ تحریرات کا یہی وہ خلاصہ، لب لباب اور عطر ہے جس سے انسان کی مادی زندگی آسودہ اور روحانی زندگی معطر ہوتی ہے، آپ کی نگارشات کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اسلام گہوارۂ رحمت ہے۔ محمد عربی ﷺ کی ذاتِ اقدس اس پیغام رحمت کی امین ہے اور آپ ﷺ ہی کی ذات بافیض ساری انسانیت بلکہ ساری کائنات کے لئے سایہ رحمت ہے۔ دکھی انسانیت کو آپ ہی کے دامن کرم میں پناہ مل سکتی ہے۔

آپ ﷺ ہی روشنی کا عظیم مینار ہیں، جس کی روشنی میں ساری انسانیت اپنے لئے صلاح دنیا و فلاح آخرت کا راستہ پاسکتی ہے۔ انسانیت کی عظمت اس کی عزت و ناموس کی حفاظت آپ ہی کے دامن رحمت میں پناہ لے کر حاصل کی جاسکتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی تحریرات سے اسی والہانہ عقیدت و محبت، جذبہ احترام، عظمت و تعظیم کو کتاب و سنت و آثار صحابہ سے مزین کرکے ذوق و شوق اُخروی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ (رحمہ اللہ) کی پاکیزہ زندگی کے شب و روز ایک کھلی کتاب ہیں جس سے اکتساب فیض کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارا جاسکتاہے۔ اپنے فکر و عمل، تحقیق و جستجو، محنت و کاوش اور مخلصانہ جدوجہد سے علم و عمل اور عرفان حق کی جو راہیں آپ نے ہموار کی ہیں، اس پر چل کر اور ان کی پاکیزہ تحریروں میں سموئے ہوئے جذبات اُلفت و محبت، عظمت و توقیر کو اپنے سینے سے لگا کر اور ان پر اپنی پلکیں نچھاور کرکے ایک بندۂ مومن راہِ نجات پاسکتا ہے، اور اپنی زندگی کے اوقات کو جو مہلت عمل کیلئے دیئے گئے ہیں اور اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے بخشے گئے ہیں، اسی مبارک فکر و عمل میں بتاتے ہوئے اللہ کے حضور سرخ روئی و شاد کامی کے ساتھ حاضر ہوسکتا ہے۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیت