بارگاہ رب العزت میں حضوری کیلئے جدوجہد

محمد ضمیر رشیدی (کامٹی، ناگپور)
آم کی گٹھلی ہاتھوں میں لے کر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس گٹھلی کے اندر ایک سرسبز آم کا درخت، لکڑیوں کا ذخیرہ، آم کے انبار، گھنا سایہ اور ٹھنڈی ہوا وغیرہ چھپی ہوئی ہیں تو ہر شخص اس دعوے کی تائید کرے گا، کیونکہ آم کی گٹھلی سے حاصل ہونے والے یہ سارے فائدے ہر کسی کے علم و مشاہدہ میں ہیں۔ لیکن آم کی گٹھلی سے فائدہ حاصل کرنے کے امکان کو واقعہ بنانے کے لئے چند اصول اور ضابطے کی رعایت کے ساتھ ایک مخصوص محنت درکار ہے، جس کے بغیر یہ سارے فائدے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً گٹھلی کو زمین میں دبانا، کھاد پانی کا انتظام، جانوروں سے نگہداشت وغیرہ۔ اس کے برعکس اگر گٹھلی کو ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کانچ کی کسی الماری یا طغرے میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ سجاکر رکھ دیا جائے، روزانہ اس پر عطر پاشی کی جائے اور اگربتی کی دھونی دی جائے تو برسہا برس کی محنت کے باوجود اس سے وہ نتیجہ یا فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جو اس سے مطلوب و مقصود ہے۔ الحاصل یہ کہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ محنت صحیح اور نتیجہ رخی ہو۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراف قریش (جن میں عتبہ، شیبہ، ابوجہل وغیرہ بھی شامل تھے) سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’لوگو! میں صرف ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں، اگر تم اسے مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارا مطیع فرمان ہوگا‘‘۔ اس حدیث شریف میں جس کلمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہ کلمہ طیبہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ یہ کلمہ توحید ہے، یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا کلمہ ہے، یہ تسخیر کائنات کا کلمہ ہے۔ چنانچہ اس کلمہ کو پڑھنے کا مطالبہ اس اعتبار سے نہیں ہے، جس طرح ہم بازار میں دُکانوں کے نام پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اگر اس کو پڑھنے سے ایسا ہی مقصود ہوتا تو عرب کے مشرکین اس کلمہ کو ضرور پڑھ لیتے، مگر وہ بھی جانتے تھے کہ من چاہی اور رب چاہی دو اضداد ہیں

اور دو ضدیں بیک وقت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، لہذا کلمہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں من چاہی چھوڑکر رب چاہی زندگی اختیار کرنی ہوگی اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ تاہم یہ کلمہ ایک محنت چاہتا ہے، جس کی بناء پر انسان کی زندگی میں ایمان و یقین اور نیک اعمال کی بہار آتی ہے۔ اس کلمہ کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کے بعد ایمان و اعمال کو مرتبہ کمال تک پہنچانے کے لئے جدوجہد درکار ہے۔ کسی بندہ کو ہدایت عطا کرنے کی اللہ کی سنت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی طرف انابت اور رجوع کرے، اس کی بارگاہ میں گڑگڑائے اور آہ و زاری کرے۔ غرضیکہ اللہ سے ہدایت کو اس طرح طلب کرے، جیسے کوئی بھکاری بھیک مانگتا ہے۔ نیز اس کے راستہ کی جدوجہد اختیار کرے کہ یہی چیزیں انسان کو ہدایت و توفیق سے قریب کرنے والی ہیں۔

اکثر انسان ہدایت کے اس معاملے میں کفر و ضلالت اور گمراہی کی گھاٹیوں میں یہ سوچ کر پڑے رہ جاتے ہیں کہ جب ہدایت کا دینا بھی اللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے تو وہ ہمیں ہدایت کیوں نہیں دیتا؟۔ واضح ہونا چاہئے کہ ایمان کی ہدایت اور اعمال صالحہ کی توفیق صرف اسی بندہ کو ملتی ہے یا ملے گی، جو خود اس کے لئے طالب اور کوشاں ہو۔ یہی سنت اللہ ہے، نیز اللہ کی سنت تبدیل اور تحویل نہیں ہوتی اور اللہ بے نیاز ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف چلتا ہے تو اس کی رحمت بندہ کی طرف دوڑکر آتی ہے۔ گویا دیر بندہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے، ورنہ اس کے الطاف تو بہت عام ہیں اور کسی انسان کو غریق رحمت کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں بے شمار انسان محنت کر رہے ہیں، تاہم یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اسی انسان کی محنت کامیاب و بامراد ہوگی، جس کی محنت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے اسلوب و ہنج سے میل کھا جائے گی۔ چنانچہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے اسلوب و طریقۂ کار کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’وہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے‘‘۔ (سورۃ الجمعہ)

چنانچہ ایمان و اعمال صالحہ کی حقیقت کو پانے کے لئے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس آیت شریفہ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں، یعنی قرآن مجید کی آیتوں میں تدبر و تفکر کرنا اور اللہ کی آیتوں کو پڑھ کر سنانا کہ یہ دعوت ہے اور دعوت کا خاصہ یقین پیدا کرنا ہے۔ الحاصل یہ کہ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔

دعوت کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض نبیوں کی اپنے عزیز و اقارب اور دیگر افراد خاندان کے تعلق سے انتہائی حریص ہونے کے علی الرغم نور ہدایت کا فیصلہ صرف اس لئے نہیں کیا گیا کہ یہ لوگ از خود اس کے طلب کرنے کا مصمم ارادہ اور پختہ فیصلہ نہیں کئے ہوئے تھے، جب کہ اس کے برعکس حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے نور ہدایت سے سرفراز فرمایا کہ کفار و مشرکین کی جانب سے انتہائی اذیت پہنچائے جانے کے باوجود ’’احد احد‘‘ کہا کرتے تھے۔
یہ قول فیصل ہے کہ اللہ تعالی نے ہدایت و توفیق کو جدوجہد کے ساتھ مشروط و موقوف اور مربوط رکھا ہے، جس پر یہ آیت دال ہے: ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے، انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے‘‘۔ (سورۃ العنکبوت۔۶۹)

مزید برآں جس طرح کسی شخص کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ بلوغت کے آثار کو روک سکے، ٹھیک اسی طرح ایمان اور اعمال صالحہ کو حقیقت کے اعتبار سے پالینے کے بعد کوئی شخص تقویٰ، احسان و مروت، جود و سخا، ایثار و قربانی، صبر و برداشت، تسلیم و رضا، استقامت و فراست، حلم و برد باری، عجز و انکساری، اطاعت و فرماں برداری، معرفت و آگہی، اخوت و محبت، ہمدردی و غمگساری اور خلوص و محبت جیسی اعلی و ارفع صفات سے اپنی ذات کو خالی نہیں رکھ سکتا۔ تاہم اہل ایمان کے لئے یہ شایا شان نہیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد ایمان اور اعمال صالحہ کو مرتبہ کمال تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کا واسطہ اور وسیلہ اختیار نہ کریں۔ اگر اہل ایمان جدوجہد کا راستہ اختیار نہ کریں تو ایسی صورت میں ان کے بارے میں بھی وہی بات کہی جائے گی، جیسا کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض بدوؤں کے تعلق سے یہ بات کہی گئی تھی: ’’کہتے ہیں بدوی لوگ کہ ہم ایمان لائے تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے۔ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات۔۱۴)