وہ تو تصورات میں ہم انہیں دیکھ چکے
چہرے پہ کوئی کام نہیں اب نقاب کا
بارک اوباما کا دورۂ سعودی عرب
صدر امریکہ بارک اوباما کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے ان کا نیم دِلانہ خیرمقدم کیا جائے گا۔ جمعہ کو ریاض پہونچنے کے بعد اوباما نے سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو حسب سابق مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی ملک کی ناراضگیوں کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات اور بین الاقوامی اُمور کے علاوہ ایران، شام اور مصر پر تبادلہ خیال کے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اوباما نے شام میں امریکہ کی مداخلت پر سعودی عرب کی ناراضگی و تشویش کو بھی دور نہیں کیا۔ شام کی اپوزیشن کو سعودی حکومت کی حمایت پر پیدا ہونے والی صورت تحال اور مصر میں ایک مستحکم حکومت بنانے کے لئے امریکہ کی عدم دلچسپی پر سعودی عرب کی تشویش برقرار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خاص کر عراق اور فلسطین میں بھی پائی جانے والی نازک صورتحال کو ان دنوں امریکہ بہت ہی کم اہمیت دے رہا ہے۔ سعودی عرب کی اصل تشویش ایران ہے۔ حال ہی میں ایران سے صدر امریکہ کی قربت اور ایک معاہدہ کے طئے پانے سے بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کو نظرانداز کردیئے جانے کی جو شکایت ابھری تھی، اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سعودی عرب کو شکایت ہے کہ ایران راست طور پر خلیجی ملکوں میں خفیہ کارروائیوں میں ملوث ہے اور وہ اپنی ’’القدس فورس‘‘ جو ایران کے پاسداران انقلاب کی خفیہ طاقت کو استعمال کرتے ہوئے خلیجی ملک میں بدامنی پھیلا رہا ہے۔ صدر امریکہ نے سعودی عرب سے اپنے ملک کے ابتر تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر یہ دورہ کیا مگر امریکہ کی پالیسی میں اختلافات کے نتیجہ میں خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ اگرچیکہ اس دورہ کو بہت اہمیت دی جارہی تھی۔ صدر اوباما نے 2009ء میں بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس کے فوری بعد مصر کی جامعہ ازہر میں اپنا مقبول عام خطاب کرتے ہوئے عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی دوستی کو مضبوط کرنے اور قربت میں وسعت دینے کا عہدہ کیا تھا۔ مسلمانوں اور عرب دنیا کے ساتھ امیرکہ کے تعلقات کے نئے باب کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد کے برسوں میں اوباما نے جو فیصلے کئے ہیں اور جن پالیسیوں پر عمل کیا ہے، اس سے عرب دنیا کے ساتھ امریکہ کی قربت میں مضبوطی کے بجائے دوری پیدا ہوئی۔ اس مرتبہ بھی اوباما نے شاہ عبداللہ سے ملاقات کے دوران بہت بڑی مثبت تبدیلی آنے والی پالیسی کا اظہار نہیں کیا۔ کسی بھی عالمی لیڈر کے لئے سعودی عرب کا دورہ اس وقت تک کامیاب نہیں کہلاتا تاوقتیکہ سعودی عرب مطمئن نہ ہو۔ اوباما کا دورہ بھی سعودی عرب کو زیادہ خوش نہیں کرسکا۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں کے دوران اپنے خطے میں پالیسیوں کو تبدیل کیا ہے جس سے امریکہ کے مقاصد کو ٹھیس پہونچ سکتی ہے۔ اس لئے اوباما نے اس دورے کے ذریعہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، مگر یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی، یہ آنے والے دنوں میں دونوں جانب کے موقف سے واضح ہوگا۔ فی الحال سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی صورتِ حال اور یہاں کے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے امریکہ اور سعودی عرب کے پاس کوئی ’’تیر بہ ہدف نسخہ‘‘ نہیں ہے۔ اس لئے مسائل کی موجودگی کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی برقرار رہتی ہے تو اس کا قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے کئی دہوں طویل اتحاد کے باوجود حالیہ برسوں میں اوباما کی مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے تعلق سے مختلف پالیسیوں نے تلخی پیدا کردی ہے۔ اس لئے امریکہ کو اس خطے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ان ملکوں اور مشرق وسطیٰ میں اس کی پالیسیاں کیا ہونی چاہئے، اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ صرف تجارتی اور تیل کی خریدی کے نکتہ نظر سے تعلقات کو مضبوط اور کمزور بنانے پالیسی بنالی ہے تو یہ افسوسناک تبدیلی ہوگی۔ گزشتہ 60 سال سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل اور سکیورٹی کی پالیسی ہی برقرار رہی تھی لیکن امریکہ کو سعودی عرب سے تیل کی خریدی کی خاص ضرورت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف ملک کے تعلق سے پالیسیوں کو تشویشناک رُخ دے دیا ہے۔ امریکہ کا یہ رویہ کشیدگی کو کم کرنے میں معاون نہیں ہوگا، اس لئے دونوں جانب ایک مضبوط رابطہ کاری اور تال میل کو وسیع بنانے پر توجہ دیں تو شام کے بشمول دیگر عرب دنیا مسائل کی یکسوئی کیلئے پالیسی کوشش کرتے ہوئے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ روس کیساتھ امریکہ کے تعلقات میں خرابی کے درمیان اگر اوباما نے سعودی عرب کی تشویش کو دُور کرنے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے تو اس سے شام میں روس کی پالیسی کیخلاف سعودی عرب کے موقف کی بھی حمایت ہوجائے گی۔
ہندوستان میں تعلیم کی زبوں حالی
ہندوستان میں تعلیم کی زبوں حالی پر حال ہی میں یونیسکو کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگر دنیا کے 67 ممالک میں ٹیکس نظام کو زیادہ موثر بنایا جائے تو ان ممالک کی حکومتوں کو اپنے ملک کے ہر بچے کو معیاری پرائمری اور سیکنڈری تعلیم فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ یو پی اے حکومت نے حق تعلیم قانون کو نافذ کیا تھا مگر اس پر دیانت داری سے عمل آوری کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ لڑکے اور لڑکیوں کو اسکول لانے کی مہم بھی چلائی گئی، اس کے نتائج حسب توقع برآمد نہیں ہوسکے۔ غربت اور بیروزگاری نے ہندوستان کے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 90% بچوں کے ہاتھوں سے کاغذ و قلم چھین کر کمسنی میں روزی کے حصول کے لئے دوڑ دھوپ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کے بچوں کو اچھی تعلیم میسر نہیں ہوئی۔ کوئی بچہ لگاتار چار سال اسکول جائے تو اس کے بعد بھی وہ پڑھنے لکھنے کی صلاحیت حاص نہیں کرپاتا، کیونکہ انہیں دی جانے والی تعلیم معیاری نہیں ہوتی یا پھر ان کے گھر کا ماحول تعلیم کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ ہندوستان کا خوشحال طبقہ تعلیم کے معاملے میں صدفیصد آگے ہے لیکن غریبوں کے لئے صدفیصد خواتین کا تصور محال ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے سب کے لئے تعلیم کے پروگرام کے تحت 2015 کے لئے جو نشانہ مقرر کیا تھا، اس کو پوری طرح حاصل نہیں کیا جاسکا۔ اس کی اصل وجہ تعلیمی پروگرام پر موثر عمل آوری کا فقدان ہے۔ سرکاری اسکولوں میں خراب تعلیم کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر شکایت انہی سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھتی ہے کہ اساتذہ سرکاری اسکولوں سے غیرحاضر رہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو سرکاری اسکولوں کا بہت بُرا حال ہے۔ تعلیم کو ترجیح دینے کیلئے ٹیکس کی آمدنی کو بڑھانے کی ضرورت ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو دیانت داری سے سرکاری پروگراموں پر عمل آوری کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے۔