تلنگانہ عوام خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے عوام کے لئے تلخ اور فوری زمینی حقائق سامنے رکھیں تو نقشہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت اور اس کے سرکاری ادارے عوام الناس کو معمولی سے معمولی مصیبت سے بچانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حالیہ غیر موسمی بارش نے تلنگانہ میں کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا تو شہروں میں بارش کے تھوڑے سے پانی سے شہریوں کو خوف اور تشویشناک حالات سے دوچار کردیا۔ ڈرینج سے بدبودار پانی کے چشمے اُبلنے کے مناظر تو عام بات ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی گراں خوبی تو یہ ہے کہ وہ اپنی خرابیوں پر نادم ہی نہیں ہوتا۔ ہمیشہ طعن دشنام کے تیروں سے گھائل ہوکر وہی اپنی چال بے ڈھنگی میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کی ساکھ پہ چھینٹے اُڑائے جاتے ہیں۔ یہ کیسی نااہل اور بدعنوان بلدیہ ہے جو شہریوں کو تکالیف میں ڈھکیل کر آنے والے انتخابات کے لئے کمر کس رہا ہے۔ شہر میں چند سنٹی میٹر بارش سے سیلاب کا منظر پیش کرنے والی سڑکیں ہمیشہ موٹر رانوں کے لئے موت کی دعوت دیتی ہیں۔
عالمی درجہ کا شہر بنانے کے دعویٰ کرنے والے بھی اس شہر کی ابتر بلدی صورتحال پر اُف تک نہیں کرتے۔ ماہرین نے بارہا کہا ہے کہ شہر میں موجودہ بارش کے پانی کی موریوں کی دیکھ بھال ناقص ڈھنگ سے کی جاتی ہے۔ایسی صورت میں اگر تھوڑی سے بھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو موٹر رانوں اور راہرو حضرات کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں شہروں میں مسلسل غیر موسمی بارش کے بعد شہر میں جگہ جگہ اجڑی ہوئی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ہورڈنگس گرے ہوئے درخت اکھڑے ہوئے اور کئی علاقوں میں برقی تاروں پر قہر ٹوٹنے کے واقعات نے تاریکی میں ڈوبی راتوں کے ساتھ مچھروں کی بہتات نے نظم و نسق کی صلاحیتوں کی پول کھول دی ہے۔ اب حکومت کے اس دعوے پر یقین کرنے والوں کو صدمہ ہوا ہوگا کہ یہ حیدرآباد عالمی درجہ کا شہر کہلائے گا۔ پیر سے ہونے والی بارش نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپورشن کے عہدیداروں کو بھی سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ سنٹرل زون میں ہی تقریباً 68 چوراستوں پر پانی جمع ہوگیا۔ شام اور رات تک 108 ایسی شکایات موصول ہوئیں جو صرف پانی بھرنے اور گھروں میں گھس آنے سے متعلق تھیں۔ شہر کے پاش اور مصروف سمجھے جانے والے علاقوں میں بارش نے بلدی حکام کو ان کی خرابیوں کی جانب نشاندہی کی تھی۔ اس کے 100 روزہ ایکشن پلان پر بھی اس پانی نے منہ چڑایا ہے۔ بلدیہ کے اس 100 روزہ ایکشن پلان سے ایک بھی شہری کو فائدہ نہیں ہوا۔
جب شہریوں سے ٹیکس وصول کرنے کا معاملہ ہوتا ہے تو اس نے حال ہی میں بہت ہی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریکارڈ ٹیکس وصول کیا ہے۔ شہریوں نے بھی اپنی جائیداد کا ٹیکس اس توقع کے ساتھ ادا کیا کہ اس رقم کو ان کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے خرچ کی جائے گی۔ خاص کر اچھی سڑکیں، مؤثر ڈرینج نظام صاف ستھری سڑکیں، روشن اور کشادہ گلی کوچے ہوں۔ بلدیہ نے سڑکوں کو بہتر بنانے کے لئے اپنے بجٹ میں 1956 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے اس سال 28.48 کروڑ روپئے بھی منظور کئے گئے ہیں۔ ڈرینج کی صفائی کے ساتھ بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے مانسون آنے سے قبل ڈرینج نظام کو بہتر بنانے کی ہدایات دی گئی تھیں لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بلدیہ نے ان تمام ضروریات کوثانوی حیثیت دی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ تلنگانہ حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی طرح شہریوں کی ضرورتوں اور مسائل کو بھی ثانوی درجہ دے دیا ہے۔ یعنی ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق ہیں۔ یہی شہریوں کے تمام تر مسائل کی جڑ ہے۔ یہ ساری خرابی حکومت اور محکموں کی غفلت نگاہ کی ہے۔ وزراء اور عہدیدار حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ ارباب اقتدار کو سامنے کی حقیقتیں نظر نہیں آتیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے آنے والے 200 ڈیویژنوں کے انتخابات میں کارپوریٹرس کے انتخاب کے لئے شہریوں کو ہی اصلاح اولین کو اہمیت دے کر ووٹ دینا ہوگا۔