بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ

بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ ہوئے ۲۵برس گزر چکے ہیں،شہنشاہ بابر کے وزیر میر باقی نے ۱۵۲۸؁ء میں اس مسجد کی تعمیر کی تھی ،راجو گاندھی کے دور میں اس کا تالہ کھولا گیا تھا ،شیلا نیاس کی رسم بھی ادا کی گئی تھی ،۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲؁ء کومنصوبہ بند سازش کے تحت بابری مسجد کو کارسیوکوں نے منہدم کردیا ، اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائوکی پشت پناہی ان کو حاصل تھی ،وزیرموصوف نے گوکہ مسجدکی اسی جگہ دوبارہ تعمیر کا پارلیمنٹ میں وعدہ کیاتھا لیکن وعدہ وفا نہیں ہوسکا ،تاریخی حوالوں اور دستاویزات سے بابری مسجدکے مقام پرمندرہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکا۔قانونی دستاویزچونکہ موجودہی نہیں تھے اس لئے اس کوعقیدہ اورآستھا کا مسئلہ بنا دیا گیا،اوراسی کو موضوع بحث بناکرملک بھرمیں رتھ یاترائیں نکالی گئیں تاکہ مذہب کی آڑمیں نفرت کا پرچارکیا جائے اور افتراق وانتشارپیداکرکے ووٹ بنک مضبوط کیا جائے،ملک بھر میں فسادات رونماہوئے اورکئی ایک افرادلقمۂ اجل بن گئے،اوراس سانحہ کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرنے اورقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے آواز اٹھانے والے پولیس ظلم کا شکارہوئے ،فرضی مقدمات عائد کرکے قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی انہیں گزرناپڑا۔اورجنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محبت وبھائی چارہ کی فضاء کو مسموم کیا اورمسجدکی انہدامی کاروائی کی سازش رچاکرلاکھوں کارسیوکوں کو جمع کرلیا تھااورمسجدکو شہیدکرنے کے مجرم سمجھے جارہے تھے ان پر کوئی قانونی گرفت نہیں ہوسکی بلکہ ان میں کچھ وہ بھی ہیں جو اس وقت حکومت کے اہم عہدوں پر فائزہیں۔بابری مسجدکی شہادت ایک ایسا سانحہ ہے جس کومسلمان اورسیکولرذہن رکھنے والے غیر مسلم بھائی کبھی نہیں بھلاسکتے۔یہ سانحہ سیکولرملک پرکلنک کا ٹیکہ ہے، اس وقت حق ملکیت سے متعلق مقدمہ زیر دوراں ہے ۔۵؍ ڈسمبر ۲۰۱۷؁ء سے روزانہ کی بنیادپرسماعت کا آغاز ہونے والا تھا جو اب فروری ۲۰۱۸؁ء تک کے لئے ملتوی کردیا گیاہے،ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ملکیت کے مقدمہ سے قبل مسجدکے انہدام کی جو مجرمانہ کاروائی انجام پائی تھی اس مقدمہ کی سماعت مکمل ہوتی۔افسوس اس بات کا ہے کہ بابری مسجدکی جگہ جبروظلم سے رام مندرتعمیر کرلی گئی ہے،بابری مسجدکا مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجودحکومت کے ذمہ داروں اوربعض نام نہاد وطن پرستوں کی جانب سے مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیرکی وکالت جاری ہے،جبکہ بابری مسجدکواسی جگہ تعمیر ہونا چاہئے ،مسجدکی جگہ مندرکی تعمیرکا مطالبہ ملک کے سیکولرکردارکو داغدارکرناہے۔۲۵؍سال گزرجانے کے باوجودحق وانصاف کے فیصلہ میں رکاوٹ ہورہی ہوتواس سے بڑھ کرسیکولرملک کا المیہ اورکیا ہوسکتاہے؟

ملک کے مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ جمہوریت پسنداکثربرادران وطن کو اس بات کا یقین ہے کہ عدلیہ حق ملکیت کے مقدمہ میں حق کی تائیدکریگا،ملک کے امن پسندشہری بابری مسجدکی شہادت کے دن کو ’’یوم سیاہ‘‘ کے طورپر مناتے ہیں،انکا غم وغصہ حق بجانب ہے ،حکومت اورقانون کے اداروں کی طرف سے انکی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے، ملک دشمن طاقتیں اس دن کو ’’یوم شجاعت‘‘مانتی ہیں،جبکہ اس دن کو تاریخ کے صفحات میں ’’یوم ظلم‘‘اور’’یوم سیاہ‘‘کے نام سے رقم کیا جائے گا۔مذہب اورکسی بھی ملک کے آئین کی روسے ظلم وبربریت کا ننگاناچ ناچنے والے اورفسادمچانے والے کبھی بہادرنہیں سمجھے گئے ،انصاف کا خون کرنے والے اورظلم ڈھانے والے بہادرنہیں بلکہ بزدل ہوتے ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پوراکرنا اورظلم کے خلاف سینہ سپرہوجانا ہی بہادری وشجاعت ہے۔سیکولر ملک پر ایک خاص مذہبی فکرکی حکومت مسلط کرنے کا منصوبہ رکھنے والی طاقتیں حق وانصاف کا خون کرکے باطل کی راہ سے بابری مسجدمقدمہ کواپنی مرضی کے مطابق ویسے ہی نمٹانا چاہتی ہیں ،جیسے انہوں نے ۲۵؍سال قبل پولیس وفوج کی نگرانی میں بابری مسجدکوشہیدکردیا تھا۔اس ملک پر مسلم حکمرانوں نے برسوں حکومت کی ہے،انہوں نے ہمیشہ بلالحاظ مذہب وملت سب کے جذبات واحساسات کا پاس ولحاظ رکھا،تمام مذاہب کااوران کے ماننے والوں کا احترام کیا ہے ،مساجد کے علاوہ اورعبادت گاہوں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ ان کو مالی امدادبھی دی اور اراضیات بھی اُن کے نام کی۔ملک میں امن وامان کے قیام کو اولین ترجیح دی،رعایہ کی فلاح وبہبودان کا اولین ہدف تھا، انہوں نے حق وانصاف کے معاملہ میں اپنے اورپرائے کاکوئی خیال نہیں کیا، خوشحالی اورامن وسکون کی فراہمی کوانہوں نے نصب العین بنالیا تھا جس کی وجہ رعایہ چین وسکون سے زندگی بسرکر رہی تھی، اوراب صورتحال اسکے برعکس ہے ،امن وامان کے بجائے فساد وبدامنی ،صلاح وفلاح کے بجائے قتل وغارت گری،خوشحالی وفارغ البالی کے بجائے غربت وافلاس ،پستی وزبوں حالی کا راج ہے۔ان حالات میں امت مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کرے،اسکے لئے دوامرکی ضرورت ہے:ایک ہے تعلق مع اللہ، اس میں جس قدراستحکام ہوگااللہ کی مددونصرت اسی قدر شامل حال ہوگی،ارشادباری ہے: ’’اگرتم اللہ کی یعنی اسکے دین کی مددکروگے تو وہ تمہاری مددفرمائے گا،اورتمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘ (محمد:۷ ) اللہ سبحانہ کی مددہرحال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے جواللہ کے دین کی مددکرتے ہیں،یہی بات سورۃ الحج ؍۴۰میں بیان کی گئی ہے۔ ’’اللہ سبحانہ ضروران کی مددفرماتاہے جو اس کی یعنی اسکے دین کی مددکرتے ہیں‘‘۔حدیث پاک میں ارشادہے۔’

’تم اللہ کی یعنی اسکے احکام کی رعایت رکھواللہ سبحانہ تمہاری حفاظت فرمائے گا،اللہ سبحانہ کے حدودواحکام کی حفاظت کرو گے تواس کی نصرت وحفاظت کے جلوے بچشم خوددیکھ سکوگے‘‘ (الترمذی:۲۵۱۶،واحمد۱؍۲۹۳)دین وایمان کے تقاضے جب پورے ہوتے ہیں اورامت کی اکثریت اس رنگ میں رنگ جاتی ہے تو اللہ سبحانہ ان کو رعب کی نعمت نصیب فرماتے ہیں۔’’اللہ سبحانہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیاہے‘‘ (حشر:۹) ایمانی کیفیات کی وجہ بڑے بڑے میدان سرہوتے ہیں۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکواللہ سبحانہ نے یہ نعمت سب سے زیادہ عطا فرمائی تھی ،چنانچہ دشمن ایک مہینہ کی مسافت پرآپ ﷺ سے مرعوب ہوجاتاتھا۔ایمان والوں کوبھی یہ نعمت ان کی ایمانی کیفیات کے بقدرنصیب ہوتی ہے،اس نعمت کی وجہ دشمنوں پردہشت وگھبراہٹ طاری ہوتی ہے،اس سے دفاعی طاقت کے استحکام میں بڑی مدد حاصل ہوتی اورمسائل بآسانی حل ہوتے ہیں۔ دوسری صورت اسباب کے درجہ کی ہے،وہ یہ کہ اپنے موقف کی تائیدکیلئے جو ظاہری صورتیں ہوسکتی ہیں ان کو اختیارکیا جانا چاہئے ۔ اسکی ایک ظاہری صورت تو یہ ہے کہ سیکولرملک میں دستورکے چوکھٹے میں رہتے ہوئے حکومت وقانون کے اداروں سے رجوع کیاجائے،بفضل تعالی یہ کام مسلم پرسنل لا بورڈ اوردیگرکئی ادارے انجام دے رہے ہیں، مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی دفاع کیلئے دیندارانہ مزاج بنائیں ،دین کو اپنی ذات ،اہل وعیال اور اپنے حال وماحول پر نافذکریں۔اپنی صفوں میں اتفاق واتحادپیداکریں،مسلک ومشرب کی اختلافی نزاکتوں میں پڑنے کے بجائے اسلام کے بنیادی وآفاقی افکارواعتقادات اورکثیرمتفقہ مسائل واحکام کی بنیادپرایک ہوجائیں،عیسائی جن کے ہاںکئی طبقات جیسے کیتھولک، پروٹسٹنٹ، آرتھیوڈکس ہیں،اوران کے درمیان زمین وآسمان کا اختلاف ہے ،ہندومذہب کے ماننے والوں کے درمیان آریا سماجی اورسناتن دھرم اورنہ جانے اونچ نیچ،بھید بھاؤ کے کتنے ہی اختلافات ہیں ،افکارونظریات کی ایک بہت بڑی خلیج انکے درمیان حائل ہے اورطبقات بھی ہیں جومذہبی اورسماجی بنیادوں پرآپسی اختلافات کا شکارہیں لیکن وہ سب اس وقت اسلام اورمسلم مخالفت پرمتحدہیں۔امت مسلمہ کے ہاں اتفاق کی عظیم بنیادیں موجودہونے کے باوجودآپس کا اختلاف وانتشارایک بہت بڑا المیہ ہے،نوشتہ دیوارپڑھنے ،عالمی اورملکی سطح پراسلام اورمسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کا جواب اسلامی اتحاداوراسلامی احکام پرعمل پیرا ہوکر دانشمندانہ حکمت عملی اختیارکرتے ہوئے دئیے جانے کی شدید ضرورت ہے۔نیزاسباب کے درجہ میں جو ادارے کام کررہے ہیں ان کا بھر پورتعاون کرنا،اوراسکے ساتھ مجالس استغفارمنعقد کرکے دعاؤں کا خاص اہتمام رکھنا امت مسلمہ پرلازم وضروری ہے۔اعداء اسلام ومسلمین کی منصوبہ بند سازشوں کے نقصان وضررسے محفوظ رہنے کیلئے اہم ترین ہتھیارتقوی وپرہیزگاری،خداترسی و دینداری ہے۔اسکے بغیرمادی اسباب نہ کبھی کام آسکے ہیں اورنہ کبھی کام آسکتے ہیں۔مساجداللہ سبحانہ کا گھرہیں،مساجد کے بغیراسلامی معاشرہ کا تصورممکن نہیں،ایک مسلمان کی زندگی کا محورومرکزاللہ کی نسبت سے مسجدہوتی ہے،فقہاء احناف کی تحقیق یہی ہے کہ کوئی اراضی جب ایک مرتبہ مسجد کیلئے وقف ہوجاتی ہے تو وہ تاقیام قیامت مسجدہی رہتی ہے ، زمین کی انتہائی نچلی سطحوں یعنی تحت الثری تک اورآسمان کی بلندیوں تک فضائی حصہ مسجد ہی کا حکم رکھتاہے، مسجداگرویران ہوجائے یا منہدم ہوجائے تب بھی وہ مسجد ہی برقراررہتی ہے،اسکا احترام ہر حال میں مسجد ہی کی طرح لازم رہتاہے(شامی :کتاب الوقف)اس لئے مسلمان مسجدکے بارے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کے موقف میں نہیں ۔اس لئے وہ اس سے دستبردارنہیں ہوسکتے۔ ملک کے تمام طبقات کے لئے دستورہندمیں دئیے گئے حقوق کی روشنی میں حکومت اورقانون کے اداروں کا فرض ہے کہ وہ حق وانصاف کے تقاضوں کو مجروح ہونے نہ دیں،اورسیکولرملک کے آئینی حیثیت کا تحفظ کرکے سارے عالم کو ایک اچھا اورمثبت پیغام دیں۔