بابری مسجد مسئلہ پر مسلم گروپس کی درخواست

سپریم کورٹ میں یو پی حکومت کا اعتراض داخل
مسجد میں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تو آیا اسلام ختم ہوجائے گا ؟
نئی دہلی ۔ /6 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ میں بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کیس کی سماعت کا آج سے احیاء ہوا ہے جہاں مسلم فریقین نے 3 رکنی ججس کی بنچ سے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی کے حساس تنازعہ کی سماعت پر زور دیا جبکہ یہ کیس بڑی بنچ سے رجوع کیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ اگر مسجد میں نماز ادا کرنے نہیں دیا گیا اور اسے مذہب اسلام کا اٹوٹ حصہ تسلیم نہیں کیا گیا تو اسلام میں ختم ہوجائے گا ۔ مسلم گروپ کی جانب سے جس کیس میں اصل فریقین میں سے ایک کی پیروی کرتے ہوئے راجیو دھون نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں نے 1994 ء کے فیصلے میں بابری مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے مسلمانوں کے حقوق کو یکسر نظر انداز کردیا تھا ۔ اس نے اپنی رولنگ میں یہ کہا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ عدالت نے 1994 ء میں ہندوؤں کے حقوق کو تسلیم کیا تھا کہ وہ مندر میں پوجا کرسکتے ہیں اور متنازعہ مقام پر رام کی مورتی کی تنصیب کو جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی اجازت دی تھی ۔ مسٹر دھون نے یہ بھی کہا کہ عدالت کے اس فیصلے سے یہ خیال ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد کو اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلم فریقین نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی زیرقیادت تین رکنی ججس کی بنچ سے استدعا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس کیس کو بڑی بنچ سے رجوع کردیں ۔ ہندو گروپ بھی اس مطالبہ کو دوہرا رہے ہیں ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا نے واضح کیا کہ عدالت تمام فریقین کے اعتراضات کے سماعت کے بعد بڑی بنچ کے بارے میں غور کرے گی ۔ ہندو گروپس میں سے ایک کی پیروی کرتے ہوئے سینئر وکیل سی ایس ویدیاناتھ نے مسٹر بھون کی بحث پر اعتراض کیا اور کہا کہ الہ آباد ہائیکورٹ نے 2010 ء میں ملکیت کا فیصلہ کیا ہے ۔