قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کیلئے حکمراں طاقتیں صاحب اقتدار افراد ہرجائز کو ناجائز اور سچائی کو جھوٹ ، جھوٹ کو سچ ، سفید کو سیاہ ، سیاہ کو سفید کردیتے ہیں۔ سرکاری مشنری کااستعمال اس وقت آسانی سے ہوتا ہے جب اقتدار پر فائز پارٹی کے ارکاں کے خلاف قانون کارروائی کرنے والا ہوتا ہے۔ بابری مسجد شہادت کیس میں قانونی مشنری کو اُلٹ پلٹ کر رکھدیا گیا ۔ ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی ، کلیان سنگھ سمیت 19 سیاستدانوں پر مقدمہ بازی ہونی چاہئے تھی ، انھیں سزا ملنی چاہئے تھی لیکن سی بی آئی کی رپوٹ کو کمزور بناکر پیش کرنے کے بعد عدالت نے اڈوانی اور دیگر کے خلاف بابری مسجد شہادت کیس کے الزامات خارج کردیئے تھے۔ انصاف کے حصول کیلئے کوشاں افراد نے قانون سے امید کادامن نہیں چھوڑا ۔
حاجی محبوب کی جانب سے داخل کردہ درخواست کے بعد ہی سپریم کورٹ نے ایل کے اڈوانی اور دیگر کے خلاش سازشی الزامات کو بحال کرنے کی درخواست کی سماعت سے اتفاق کیا۔ اڈوانی اور دیگر کو جاری کردہ نوٹس میں بابری مسجد کیس کے ملزمین کو جواب داخل کرنے کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت دی ہے ۔ اس ایک ہفتہ کے دوران سی بی آئی یا سرکاری مشنری اپنے سیاسی آقاؤں کے حق میں کوئی نہ کوئی قانونی گنجائش نکال کر انھیں بچانے کی کوشش کرے گی۔ درخواست گذار نے یہ درست اندازہ اخذ کیا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد بابری مسجد شہادت کے ذمہ داروں کے خلاف موثر قانونی کارروائی نہیں ہوگی ۔ مسلم طبقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے 73 سالہ حاجی محبوب نے اندیشہ ظاہر کیا کہ درحقیقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے راجناتھ سنگھ کی موجودگی اور اس کیس کے ملزم اب وزیر داخلہ ہیں اور ان کی وزارت سی بی آئی پر انتظامی کنٹرول رکھتی ہے ۔ دوسرے ملزم کلیان سنگھ اس وقت راجستھان کے گورنر ہیں۔ سی بی آئی کی کارکردگی اور اس کے ارادے بلاشبہ مشتبہ ہیںکیوں کہ قانون و انصاف کاتقاضہ یہی ہے کہ کوئی بھی ملزم محض بدعنوانیوں کے باعث سزا سے بچ جائے ۔
ہندوستان میں بدلے ہوئے سیاسی منظر میں ہی مرکز اور قانونی اتھاریٹی نے بابری مسجد شہادت کے ملزمین کے خلاف اپنا ذہن تبدیل کردیا ہے اس لئے سی بی آئی بھی ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرے گی ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے بابری مسجد شہادت کے لئے ذمہ دار سمجھے جانے والے سابق وزیراعظم نرسمہا راؤ کی یادگار بنانے کا فیصلہ بھی اسی دن کیا جب دیگر ملزمین کیخلاف نوٹس جاری کی گئی ہے ۔ بی جے پی خود کو مخالف کانگریس ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر کانگریس کے لیڈر نرسمہا راؤ کو بابری مسجد شہادت میں ان کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یادگار بنانا چاہتی ہے ۔ یوپی کے وزیر نے درست ریمارک کیا کہ این ڈی اے حکومت کی جانب سے نرسمہا راؤ کیلئے ایک تحفہ ہے ۔ بابری مسجد شہادت کیس میں شروع سے ہی عدلیہ اور سی بی آئی جیسی اتھارٹی کا بیجا استعمال ہوتا رہا ہے ۔ تحت کی عدالتوں کی جانب سے دیئے گئے فیصلوں میں فاش غلطیاں پائی گئی ہیں اور حقیقت میں مجرمانہ یا فوجداری مقدمات کے بنیادی اصولوں کو ہی بالائے طاق رکھ کر عدالتوں میں مقدمہ کی کارروائی پوری کرلی گئی ہے ۔ تحت کی عدالتوں نے ہر ایک ملزم کے احترام میں فیصلہ صادر کئے تھے ۔ قانون کی گرفت سے بچنے یا بچانے کی کوشش بھی جرم ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کے اہم ملزمین کے نام نوٹس جاری کرکے قانون کے تقد س کو برقرار رکھا ہے ۔ خاطیوں کو مناسب تحقیقات کے بعد ہی بے نقاب کیا جاسکتا ہے ۔ برسوں سے اس سب کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی طاقتیں بھی اس وقت ناکام ہوں گی جب قانون اپنا کام کرے گا ۔ انصاف کے کٹہرے میں ملزمین کو لایا جائے تو ہمارے ملک میں پائی جانے والی بے شمار خابیاں دھیرے دھیرے دور ہوں گی ۔ سپریم کورٹ کی یہ نوٹس دراصل تحت کی یا خصوصی نامزد عدالت کی کوتاہیوں کو بھی آشکار کرتی ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے اپنا درست قدم اُٹھایا ہے ۔ بابری مسجد کیس کی مناسب تحقیقات کرانا ہی انصاف کے تقاضہ کو پورا کرسکتا ہے ۔ ایودھیا کے مقام پر رام مندر کے وجود کی کوئی آرکیالوجیکل حقیقت ہی نہیں پائی جاتی تو فرقہ پرستوں نے محض ووٹ بنک کی پالیسی کے تحت اس موضوع کو اتنا گرمایا کہ سارا ملک ان سیاستدانوں کی بے عملی اوربے حسی کا شکار ہوگیا تھا ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ ایک سیاہ دور ہے جہاں سیاسی خود غرضی ، فرقہ پرستی نے اپنا کام کر دکھایا ۔ توقع ہے کہ اس ملک کا قانون اور عدلیہ انصاف کو بلند کرتے ہوئے خاطیوں کو سزا دے گا ۔