بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ

ملک پر اپنے راج کو مسلط کرنے کا منصوبہ تیار کرچکی طاقتوں نے گمان کیا جارہا ہے کہ بابری مسجد کیس کو اپنی مرضی سے نمٹانے کا بھی بندوبست کرلیا ہوگا ۔ جس طرح 25 سال قبل سرکاری دستوں کی نگرانی میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا اسی طرز پر مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے کی سازشوں کے درمیان ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ میں بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی کی ملکیت کے کیس کو مختلف پہلوؤں کی نذر کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے ۔ منگل کو سپریم کورٹ میں بابری مسجد اراضی ملکیت پر سماعت کے دوران وکلاء کی اپیلوں کو مسترد کردیا گیا کہ اس کیس کی سماعت 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد جولائی میں کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے آئندہ سال فروری تک کیس کو زیر سماعت رکھتے ہوئے فیصلہ سنانے کا عندیہ دیا ہے ۔ اترپردیش اور مرکز میں بی جے پی اپنی اکثریت سے اقتدار میں ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کا بھی وہ فائدہ اٹھا سکتی ہے ، اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کی پالیسیوں کے برعکس آئے تو یا الہ آباد ہائی کورٹ کی طرح فیصلہ سامنے آئے تو وہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی ۔ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ قائدین کے حالیہ بیانات سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کس طرز پر ہونے والی ہے ۔ آر ایس ایس نے یہ بھی کہدیا ہے کہ مندر وہیں بنے گا اور جلد بنے گا ۔ فرقہ پرستوں کو متحرک کرنے اور سال 2019 کے عام انتخابات سے قبل رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے کی کوششوں کے پیچھے کسی خفیہ سرگرمیاں جاری ہیں تو سپریم کورٹ کے مجوزہ موقف کے بارے میں بھی غور کرنے والوں کے سامنے کئی راز پوشیدہ ہیں ۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ مقدمہ صرف اراضی کا تنازعہ ہے ۔ عدالت کو اس اراضی کی ملکیت کے بارے میں ماضی کی دستاویزات اور مقامی محکمہ مال کے ریکارڈ کو دیکھنا ہے مگر جب کسی معاملہ میں مذہبی عقائد اور دو فرقوں کے جذبات وابستہ ہوں تو عدالت کو اپنا موقف اختیار کرنے میں مشکل ہوگی لیکن قانونی رائے سے ہی مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے جس میں کسی قسم کی الٹ پھیر نہیں ہوتی ۔ سپریم کورٹ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف داخل کردہ اپیلوں کی سماعت میں تاخیر سے کام لینے وکلاء کی بات پر اعتراض ہے ۔ 16 ویں صدی کی اس تاریخی مسجد کی شہادت کے 25 برس بعد بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں مل سکا ۔ سپریم کورٹ نے یو پی سٹی سنٹرل وقف بورڈ کے بشمول 13 اپیلوں کو خاطر میں نہیں لایا کہ اس کیس کو پانچ رکنی دستوری بنچ کے حوالے کیا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد اراضی ملکیت کیس کی سماعت پر عام و خاص تمام کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت میں سپریم کورٹ کی جس بنچ میں سماعت شروع ہوئی ہے ان میں اشوک بھوشن اور ایس عبدالنظیر بھی شامل ہیں ۔ وکلاء کا احساس ہے کہ یہ کیس کوئی معمولی کیس نہیں ہے ۔ اس سے ہندوستان کے مسلمانوں اور یہاں کے سیکولر حامی عوام کے جذبات وابستہ ہیں ۔ حکومت اس کیس کو اپنے طریقہ سے حل کرانے کی کوشش کررہی ہے تو عدالت عظمیٰ کو اس کی چال میں نہیں پھنسنا چاہئے ۔ کپل سبل نے کہا کہ اس کیس میں کئے جانے والے فیصلہ کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ، اب اس کیس کی سماعت کا وقت مناسب نہیں ہے ۔ اس لیے عدالت کو احتیاطی طرز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کیس میں 19000 دستاویزات ہیں جس کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے وکلاء کو مزید وقت درکار ہوگا ۔ لیکن ججس نے اس دلیل کو غیر سنجیدہ قرار دے کر عاجلانہ سماعت کرنے کے لیے زور دینے والے درخواست گذاروں کو ترجیح دی ۔ عدالت کی نظر میں کوئی بھی کیس یکساں ہوتا ہے ۔ بابری مسجد اراضی ملکیت کیس کو بھی دیگر ملکیت مقدمہ کی طرح نمٹانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ مقدمہ کو پیچیدہ بنانے والے عوامل میں متنازعہ اراضی کا مقدمہ 70 برس کی طویل قانونی لڑائی ہے ۔ جس سے اب سپریم کورٹ فوری طور پر نمٹنا چاہتا ہے ۔ اس پرانے تنازعہ کو جولائی 2019 تک موخر کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ فریقین کے پاس جب مالکانہ حقوق ثابت کرنے کے لیے دستاویزات موجود ہیں تو حال تک بھی اس کیس کو سرد خانے میں رکھنے کو ترجیح دیا جاتا رہا تھا مگر اب مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کے سیاسی عزائم کو تقویت دینے کے لیے قانون کو بھی ڈرامہ کا فریق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ملک کی سیاست کا اغواء کرلینے کی فراق میں بیٹھی طاقتیں کچھ بھی کرسکتی ہیں تو یہ سیکولر ہند کا اور بڑا سانحہ ہوگا ۔۔