بابری مسجد اراضی تنازعہ مقدمہ کی سماعت جنوری تک ملتوی

نئی دہلی۔ 29 اکتوبر ۔(سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کردی اور کہاکہ قطعی تاریخ کا تعین ماہِ جنوری میں ہی کیا جائیگا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے پیر کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جنوری 2019 میں بنچ یہ طے کرے گی کہ اس معاملے کی سماعت کس تاریخ سے شروع کی جائے۔ اسماعیل فاروقی معاملے میں سپریم کورٹ کے 1994 ء کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور مسلمان کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ کھلی جگہ پر بھی۔مسلم فریقین نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے مسئلے کو پانچ ججوں کی بنچ کے سپرد کیا جائے ۔ اس سے قبل عدالت نے کہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ پر 29 اکتوبر 2018 سے سماعت شروع ہوگی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے 2-1 کی اکثریت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسمعٰیل فاروقی معاملے میں اس کورٹ کا 1994 ء کا فیصلہ تحویل اراضی سے جڑا ہوا اور خصوصی تناظر میں تھا۔ ایودھیا اراضی تنازعے کی سماعت میں اس نکتہ کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النذیر ہیں۔ جسٹس بھوشن نے اپنی اور چیف جسٹس کی طرف سے فیصلہ سنایا جب کہ جسٹس عبدالنذیر نے اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ مقدمہ کے فریقین سنی مسلم وقف بورڈ ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للاہیں ۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے عدلیہ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ۔ ممبئی میں شیوسینا نے کہاکہ عدالت کو رام مندر کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اُسے اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کابھی کوئی اختیار نہیں رہے گا ۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ظفریاب جیلانی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت جنوری میں مقرر کی ہے اس لئے کسی کو بھی اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے اگر اُنھیں کوئی شکایات ہوں تو اسے عدالت کے اجلاس پر پیش کرنا چاہئے ۔