کرناٹک میں سیاسی رسہ کشی کے ایک طویل دور کا اختتام عمل میں آیا ۔ تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود بی جے پی جنوبی ہند میں اپنی پہلی حکومت قائم کرنے میں پھر ناکام ہوگئی ہے اور یہاں کانگریس ۔ جے ڈی ایس مابعد انتخابات اتحاد کو حکومت سازی کا موقع مل رہا ہے ۔ جنتادل ایس کے ایچ ڈی کمارا سوامی یہاں حکومت قائم کرنے جارہے ہیں اور کانگریس اس میں حصہ دار رہے گی ۔ کرناٹک کی طویل جدوجہد اور لڑائی نے ایک بات بالکل واضح کردی ہے کہ بی جے پی اقتدار حاصل کرنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اس کا واحد اور موثر علاج یہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آپس میں اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی کو اس کے ارادوں میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم نہ کریں۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے کئی مثالیں موجود ہیں جب انہوں نے ماقبل انتخابات اتحاد کیا تو بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس کی شروعات بہار سے ہوئی تھی ۔ بہار میں جب آر جے ڈی ۔ جے ڈی یو ۔کانگریس نے اتحاد کرتے ہوئے مقابلہ کیا تو بی جے پی کی جانب سے تمام ہتھکنڈے اختیار کرنے کے باوجود اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی ۔ کانگریس ۔ جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اتحاد نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی تھی ۔ بعد میں تاہم نتیش کمار نے عوامی رائے کا احترام نہ کرتے ہوئے ایک بار پھر بی جے پی سے اتحاد کرلیا اور بی جے پی نے بھی پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا تھا ۔ اس کے علاوہ حالیہ عرصہ میں اترپردیش کی دو ایسی نشستوںپر اپوزیشن کو کامیابی ملی تھی جس کے تعلق سے کسی کو گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ بی جے پی یہاں سے شکست کھا سکتی ہے ۔ گورکھپور اور پھولپور حلقوں میں سماجوادی پارٹی امیدوار کو بہوجن سماج پارٹی کی تائید حاصل تھی اور سماجوادی پارٹی نے دونوں حلقوں سے کامیابی حاصل کی ۔ گورکھپور تو وہ نشست تھی جہاں سے چیف منسٹر یو پی آدتیہ ناتھ مسلسل منتخب ہوتے جارہے تھے اور ان کے چیف منسٹر بننے کے بعد یہاں سے سماجوادی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کرلی ۔
اسی طرح کرناٹک میں انتخابات ہوئے ۔ یہاں کسی بھی جماعت نے کسی سے اتحاد نہیں کیا اور اس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ یہاں معلق اسمبلی تشکیل پائی اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے اقتدار پر قابض ہونے کی حتی المقدور کوشش کی ۔ بی جے پی حالانکہ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہونے کااعتراف کرتے ہوئے حکومت سے مستعفی ہوگئی لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے ۔ اگر یہاں بھی کانگریس اور جے ڈی ایس کے مابین انتخابی مفاہمت ہوجاتی تو پھر یہ صورتحال ہی پیدا نہیں ہوتی ۔ اسی خیال کا اظہار مختلف جماعتوں نے کیا ۔ ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی ‘ آر جے ڈی کے تیجسوی یادو اور دوسروں نے بھی اسی خیال سے اتفاق کیا ہے کہ اگر انتخابات سے قبل کانگریس اور جے ڈی ایس کے مابین اتحاد ہوجاتا تو بی جے پی کو کہیں پیچھے ڈھکیلنے میں کامیابی مل جاتی اور اس کے سیاسی حوصلے اتنے بلند نہیں ہونے پاتے ۔ حالانکہ بی جے پی یہاں اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں انتشار کی وجہ سے اس کی نشستوں کی تعداد میں اور اس کے ووٹوں کے حصول میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ یہی وہ سبق ہے جو اپوزیشن جماعتوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سبق کو اگر یاد نہیں رکھا گیا تو پھر 2019 میں بھی صورتحال کرناٹک جیسی ہی گنجلک ہوسکتی ہے ۔
بی جے پی کے ارادے تو اب تقریبا سبھی جماعتوں پر واضح ہوچکے ہیں۔ بی جے پی ملک میں کانگریس کا ہی نہیں بلکہ تمام ہی اپوزیشن جماعتوں کا صفایا کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گی ۔ اپوزیشن جماعتوں کو خود اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جمہوریت اور دستور کی بالادستی کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے آپس میں اتحادکی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی اپنی انا اور اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تمام سکیولر اور جمہوری طاقتوں کو آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک وسیع اور عظیم اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے بی جے پی کو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور پھر بے لگام ہونے سے باز رکھا جاسکتا ہے ۔ ایسا کرنا تمام اپوزیشن کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔