اﷲتعالیٰ نے آلِ نبی کو ہر برائی سے پاک رکھا

نظام عطّار غلام محمدفرید
اﷲسبحانہٗ و تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ اے نبی کے گھر والو ! اللہ تعالی تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمھیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ‘‘ ۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کی عظمت و فضیلت اور ان کے درجاتِ عالیہ کا بڑی وضاحت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے ۔ حضرت علی مرتضی اور حضرت سیدہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کو قریب کئے اور اپنے سامنے بٹھائے اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اپنے مقدس زانوں پر بٹھائے اور اپنی چادر مبارک ان حضرات گرامی پر اڑادئیے اور مذکورہ آیت تطہیر تلاوت فرمائے اور یہ ارشاد فرمائے کہ ’’ائے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے ہر ناپاکی کو دور فرما اور انھیں خوب ستھرا کردے ‘‘ ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اکرم ﷺاس آیت شریفہ کے نازل ہونے کے بعد جب نماز فجر کیلئے تشریف لے جاتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا کرتے ’’ اے اہل بیت نماز پڑھو ‘‘ ۔
حضرت سعید بن قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اہلبیت اطہار رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو اللہ تعالی نے ہر برائی سے پاک رکھا اور اپنی مخصوص رحمت سے نوازا ۔(برکات آل رسول )
قرآن مجید میں اللہ تعالی دوسرے مقام پر اہل بیت اطہار کے اوصاف حمیدہ کا خطبہ ارشاد فرما رہا ہے ، چنانچہ تفسیر خازن میں حضرت علامہ علی بن محمد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اور معالم التنزیل میں حضرت ابو محمد حسین ابن مسعود البغوی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما ایک مرتبہ بیمار ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم عیادت کیلئے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے مکان پہنچے ۔ ان میں سے کسی نے مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنے شہزادوں کی صحت یابی کے لئے نذر (منت) مانیں اور جب اللہ تعالی حضرات حسنین کریمین رضی اﷲعنہما کو شفائے کاملہ عطا فرمایا تب نذر پوری کردیں۔ چنانچہ شیرخدا حضرت سیدنا علی رضی اﷲعنہ تین روزے رکھنے کی منت مانی ۔ اس نذر میں سیدہ فاطمہؓ اور آپ کی کنیز فضہؓ بھی شریک ہو گئیں ۔ جب اللہ تعالی نے حضرات حسنین کریمین کو شفائے کاملہ عطا فرمائی تو اب نذر پوری کرنے کا وقت آیا ۔ سب لوگوں نے روزے رکھے اور افطار کیلئے روٹیاں تیار کی گئیں ۔ اچانک دروازے پر ایک شخص نے آواز دی ’’ اے نبی کے گھر والو ! میں مسکین ہوں بھوکا ہوں خدا کی رضا کیلئے کچھ عطا ہو ۔ سبھوں نے مسکین کو تمام روٹیاں دے دیں اور پانی سے افطار کرکے سجدہ شکر بجا لایا ۔ دوسرے دن بھی تینوں روزے داروں (حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ اور فضہؓ ) کیلئے روٹیاں بنائی گئیں اور جب یہ تینوں حضرات افطار کیلئے بیٹھے تو دروازہ پر دستک کی آواز آئی ’’ اے رسول کے گھرانے والو ! میں بھوکا یتیم ہوں، روٹیاں عطا ہوں ۔ چنانچہ ان تینوں روزہ داروں نے اپنی اپنی روٹیاں اسے دیدئیے اور پانی سے افطار کیا ۔ تیسرے دن بھی روزہ رکھا گیا ۔ وقت افطار ایک سائل نے آواز دی ’’ اے نبی کے گھر والو ! میں اسیر (قیدی) بھوکا ہوں‘‘۔ چنانچہ تمام روزہ داروں نے اپنی اپنی روٹیاں قیدی کو دے دیں اور پانی سے افطار کیا ۔ اس پس منظر کے تحت قرآن کریم کی یہ آیت شریفہ نازل ہوئی ’’ اور وہ لوگ کھانا کھلاتے اس کی محبت پر مسکین یتیم اور قیدی کو ‘‘ ۔ ( سورۃ الدھر )
اہل بیت عظام کی یہ ہے سخاوت، جس کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ ان میں اللہ و رسول کی خوشنودی مضمر تھی اور اسی کردار و عمل کے طفیل یہ گھرانہ باعث برکت اور قابل تقلید ہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اہلِ جنت
اہل جنت کو جب کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو ’’سبحانک اللّٰھم‘‘ کہیں گے۔ یہ سنتے ہی فرشتے ان کے مطلب کی چیز حاضر کردیں گے، گویا کلمہ ’’سبحانک اللّٰھم‘‘‘ اہل جنت کی ایک خاص اصطلاح ہوگی، جس کے ذریعہ وہ اپنی خواہش کا اظہار کریں گے اور ملائکہ اس کو پورا کریں گے۔
اہل جنت کی ابتدائی دعا ’’سبحانک اللّٰھم‘‘‘ اور آخری دعا ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ ہوگی۔ اہل جنت کو جنت میں پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی نصیب ہوگی، جس میں اللہ تعالیٰ کا ہر عیب سے پاک ہونے اور بزرگی کا ذکر ہے۔ اہل جنت کا دن رات یہی مشغلہ ہوگا۔
اہل جنت جب ’’سبحانک اللّٰھم‘‘‘ کہیں گے تو اس کے جواب میں اللہ تعالی کی طرف سے سلام پہنچے گا، جس کے بعد وہ ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ کہیں گے۔ (مرسلہ)