سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن مسترد ، کسی بھی ریاست سے غیر جانبدارانہ فیصلہ
حیدرآباد۔/25اگسٹ، ( سیاست نیوز) سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش اسٹیٹ کونسل آف ہائیر ایجوکیشن کے اثاثہ جات کی تقسیم کے مسئلہ پر تلنگانہ حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا اور اپنے سابقہ احکامات کو برقرار رکھا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن داخل کی تھی کہ آندھرا پردیش اسٹیٹ کونسل فار ہائیر ایجوکیشن کے اثاثہ جات کو دونوں ریاستوں میں آبادی کے اعتبار سے تقسیم کرنے کے فیصلہ پر نظرِ ثانی کی جائے۔ عدالت نے کہا تھا کہ 58اور 48فیصد کے تناسب سے اثاثہ جات کو دونوں ریاستوں میں تقسیم کیا جانا چاہیئے۔ جسٹس جی گوپال گوڑا اور جسٹس ارون مشرا نے نظرِ ثانی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس معاملہ میں نظرِ ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشن اور تمام متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت کو نظرثانی کا کوئی موقع نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ یہ احکامات منگل کے دن جاری کئے تھے تاہم چہارشنبہ کو ان کی اجرائی عمل میں آئی۔ واضح رہے کہ 18مارچ کو سپریم کورٹ نے تلنگانہ حکومت کی جانب سے اے پی اسٹیٹ کونسل آف ہائیر ایجوکیشن کے تمام اثاثہ جات پر اپنے حق جتانے کو مسترد کردیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اثاثہ جات اور مکمل فنڈ پر صرف اس بنیاد پر دعویداری نہیں جتائی جاسکتی کہ وہ حیدرآباد میں ہیں جو کہ تقسیم کے بعد تلنگانہ کا حصہ بن چکا ہے۔ جسٹس گوڑا نے 18مارچ کے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ حیدرآباد کا تلنگانہ کا حصہ ہونے کے سبب وہاں موجود کونسل فار ہائیر ایجوکیشن کے اثاثہ جات پر تلنگانہ اپنی دعویداری پیش نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں ہائی کورٹ نے حیدرآباد میں واقع اداروں پر آندھرا پردیش کی دعویداری اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے استدلال کو قبول نہیں کیا اور اپنے فیصلہ میں کہا کہ تقسیم کا مسئلہ حساس ہے اور کسی بھی ریاست کے ساتھ جانبداری نہیں کی جانی چاہیئے۔ عدالت نے آندھرا پردیش تنظیم جدید قانون کے سیکشن 2(h) کے تحت آندھرا پردیش اسٹیٹ کونسل آف ہائیر ایجوکیشن کے اثاثہ جات کو آبادی کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اگر دونوں ریاستیں کسی معاہدہ پر نہ پہنچ سکیں تو مرکزی حکومت دونوں ریاستوں میں اندرون دو ماہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کمیٹی قائم کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق اثاثہ جات 58 فیصد آندھرا پردیش کے حصہ میں جائیں گے جبکہ تلنگانہ کو 42فیصد حصہ ملے گا۔