ایک گھر ایسا ‘ جس کی دیواریں ہیں نہ چھت

حیدرآباد ۔ 8 ۔ ستمبر : گھر کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہنوں میں کچے یا پختہ مکانات کا تصور ابھر آتا ہے جو مکینوں کے لیے نہ صرف ایک آسرا ہوتے ہیں بلکہ وقار کی علامت بھی ہوتے ہیں ۔ گھر یا مکان اپنی در و دیوار کے ذریعہ مکینوں کی حالت زار ، ان کی بدحالی یا خوشحالی کی داستان بیان کردیتے ہیں ۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں جسے میڈیکل سٹی ، گرین اینڈ کلین سٹی ، فیاب سٹی ، ہائی ٹیک سٹی کہا جاتا ہے جہاں آسماں کو چھوتی بلند و بالا عمارات کی کمی نہیں وہیں دور دور تک پھیلی ہوئی سلم بستیاں ( گندہ بستیاں ) حکومتوں ، حکمرانوں ، سیاستدانوں اور سماج کے ٹھیکیداروں کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں ۔ اس طرح کی بستیاں دراصل ملک اور ریاست کی ترقی کے دعوے پر ایک بدنما داغ ہے جو بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
رہنے گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
قارئین ! مرکزی و ریاستی حکومتیں معاشرہ سے غربت کو اکھاڑ پھینکنے کے اکثر بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ دعوے کھوکھلے ہی ثابت ہوتے ہیں ۔ جس کا ثبوت شہر میں ایک ایسا گھر ہے جو گھومتا ہے ویسے بھی گھومنے والی Revolving ہوٹلوں وغیرہ کی کمی نہیں ہے لیکن یہ گھر اس طرح کا نہیں ہے ۔ یہ ایسا گھر ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ۔ اس گھر میں دیواریں چھت اور کھڑکیاں و دروازے بھی نہیں پھر بھی یہ اس میں رہنے والے مکینوں کے لیے ایک گھر ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جس گھر میں در و دیوار نہ ہوں وہ کیسا گھر ہے ؟ آپ کا یہ سوچنا بھی بالکل صحیح ہے لیکن ہم نے اس گھر کو دیکھا ہے ۔ اس میں رہنے والے مکینوں سے بات کی ہے ۔ آپ کا تجسس ختم کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ عجیب و غریب گھر شہر کے فیشن ایبل علاقہ وجئے نگر کالونی کے لب سڑک واقع ہے اس کے آس پاس خوبصورت بلڈنگس ہیں ۔ ڈنڈوں یا فولادی سلاخوں پر ریگزین کی بوسیدہ چادر ڈالتے ہوئے اسے چھت میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ پلاسٹک کی شیٹس دیواروں اور کھڑکیوں کا کام کرتی ہیں ۔ یہ سارا گھر تین پہیوں پر کھڑا ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ اسکے مکین جب چاہے اسے شہر کے مختلف مقامات پر گشت کراتے ہیں ۔ دراصل یہ گھر نہیں بلکہ سرکاری اداروں اور ’ اچھے دن آگئے ‘ جیسے نعرے لگانے والوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے ۔ دراصل 35 سالہ محمد یوسف نے جو اپنی غربت کے باعث گھر کا کرایہ ادا نہیں کرسکتے اپنے قدیم رکشہ کو گھر میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس کو ہم اور آپ رکشہ گھر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس انتہائی غریب رکشہ راں کا جو اس رکشہ گھر میں اپنی بیوی ریشماں اور ایک بیٹا محمد علی اور بیٹی فاطمہ کے ساتھ رہتا ہے کہتا ہے کہ وہ گذشتہ دس ، بارہ برسوں سے اسی رکشہ گھر میں زندگی گذار رہا ہے ۔ پہلے وہ جل پلی کے ایک فارم ہاوز میں چوکیداری کیا کرتا تھا اور تین ہزار روپئے تنخواہ مل جاتی تھی اس نوکری کو خیرباد کہتے ہوئے یوسف نے رکشہ چلانا شروع کردیا اور کرایہ کے گھر میں رہنے لگا لیکن بدقسمتی سے ایک سڑک حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد وہ رکشہ چلانے سے قاصر ہوگیا ۔ نتیجہ میں گھر کا کرایہ ادا نہ کرنے کے باعث اسے اپنے رکشہ کو ہی گھر میں تبدیل کرنا پڑا ۔ اپنے گذارہ کے بارے میں سوال پر یوسف نے بتایا کہ اس کی والدہ مراد نگر کے کسی گھر میں کام کرتی ہیں اور کبھی کبھار وہ اپنے بیٹے بہو اور پوتا پوتی کے لیے کھانا لے آتی ہیں ۔ یوسف کی بیوی ریشما تانڈور کی رہنے والی ہے اور اس پر مرگی کے دورے پڑتے رہتے ہیں ۔ یوسف کے مطابق کبھی کبھار راستے سے گذرنے والے لوگ کچھ دے کر چلے جاتے ہیں ۔ ہم جب اس جوڑے سے بات کررہے تھے شدید بارش ہورہی تھی ۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ یوسف کی اہلیہ اور بیٹا بیٹی رکشہ میں بیٹھے بارش کی زد میں آنے سے محفوظ تھے ۔ یوسف کے مطابق ان لوگوں کو ضرورت سے فارغ ہونے کے لیے دور جھاڑیوں میں جانا پڑتا ہے ۔ اس طرح غسل کے لیے شہر سے دور تالاب اور کنٹوں کا رخ کرتے ہیں ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کبھی کسی سرکاری عہدیدار یا سوشیل ورکروں نے ان کی حالت زار دریافت نہیں کی وہ اپنے بچوں کے ساتھ جمعہ کے دن کسی مسجد پہنچ جاتا ہے ۔ اس طرح جمعرات اور جمعہ کے دن انہیں خیرات کی شکل میں کچھ رقم مل جاتی ہے ۔ اس سوال پر کہ جوان ہونے کے باوجود محنت کیوں نہیں کرتے ؟ یوسف نے جواب دیا ’ اس حالت میں مجھے کون کام دے گا صاحب ‘ شدید بارش میں پیش آنے والی تکالیف سے متعلق سوال پر اس غریب شخص نے بتایا ہم غریبوں کے لیے بارش سردی گرمی تمام موسموں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ ہم اس کا یہ جواب سن کر سوچنے لگے کہ بے شک غربت بڑی ظالم ہوتی ہے ۔ اس پر بارش کا اثر ہوتا ہے نہ دھوپ کی تمازت اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک کہ سردی میں بھی وہ سماج کے ٹھیکداروں اور اسے ختم کرنے والے حکمرانوں کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے ۔ محمد یوسف سے بات چیت کے دوران ایک غیر مسلم شخص پنچلیا بھی وہاں پہنچ گیا ۔ اس نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ سے بے سرو سامانی کے عالم میں زندگی گذار رہے اس خاندان کو دیکھ رہا ہے ۔ اور یہ بھی محسوس کررہا ہے کہ کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آتا ۔ پنچلیا کے خیال میں حکومت غریبوں کے لیے مکانات فراہم کرنے کے اعلانات کررہی ہے لیکن یہ رکشہ ان اعلانات کا مذاق اڑا رہا ہے ۔۔ mriyaz2002@yahoo.com