ایک پرندہ اور جگنو

علامہ اقبال ؔ
سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا
چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
کہا جگنو نے او مرغ نواریز!
تجھے جس نے چہک، گل کو مہک دی
لباس نور میں مستور ہوں میں
چہک تیری بہشت گوش اگر ہے
پروں کو میرے قدرت نے ضیاء دی
تری منقار کو گانا سکھایا
چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو
مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز
قیام بزم ہستی ہے انہی سے
ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
اُڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز
اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
چمک میری بھی فردوس نظر ہے
تجھے اس نے صدائے دل رہا دی
مجھے گلزار کی مشعل بنایا
دیا ہے سوز مجھ کو ، ساز تجھ کو
جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز
ظہور اوج و پستی ہے انہی سے
اسی سے ہے بہار اس بوستاںکی