ایک دفعہ کا ذکر ہے خلیفہ ہارون رشید نے دیکھا کہ اس کے دونوں بیٹے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اتفاق سے دونوں ایک ساتھ ہی زمین پر گڑ پرے اور دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں ایک ایک جوتا آیا ۔
وہ مودب انداز میں استاد کی آمد کا انتظار کرنے لگے ۔ استاد صاحب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور جوتے پہنے ۔ شہزادوں نے انہیں سلام کیا اور رخصت ہوگئے ۔ہارون رشید جب اپنے محل میں پہنچا تو اپنے مصاحبین کو طلب کیا اور ان سے سوال کیا کہ دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص کون ہے ؟ سب نے ایک زبان کہا خلیفۃ المسلمین ۔ خلیفہ نے نفی میں سر ہلا کر کہا’’ نہیں‘‘ پھر اپنے مقربین کو اپنے بیٹوں کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ’’ خوش نصیب شخص وہ ہے جس کی جوتیاں سیدھی کرنے میں مملکت کے شہزادے فخر محسوس کریں‘‘ یہ بات سن کر درباری لا جواب ہوگئے ۔ پیارے بچو! اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ استاد کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ وہ اپنے منصب کے اعتبار سے خوش بخشوں میں شامل ہے ۔ ہمارے دین میں اسے روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے ۔ آپ بھی اپنے اساتذہ کی دل سے عزت کریں اسی میں آپ کی بھلائی ہے ۔